مثالی کردار

روحانی طلبا و طالبات  ،
ماؤں، بہنوں
 اور بیٹیوں کے لیے
مثالی کردار

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ  ان کی خدمات قبول ہوں۔ان کی مغفرت ہو اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔آمین۔


سیدہ راشدہ عفت 
محترمہ سیدہ راشدہ عفت  جنہیں سلسلہ عظیمیہ کے  اراکین اوردیگر بے شمارافراد امی جان کہتے تھے، سلسلہ عظیمیہ کی اہم ستون تھیں۔  آپ  پاکستان بننے سے تقریباً پانچ سال قبل پیدا ہوئیں۔ آپ کا تعلق دہلی کےمتوسط  سادات گھرانے سے تھا، ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ آپ  کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ آپ کے والد سید محمد ادریس  دہلی میں تاجر تھے،  آپ کے علاوہ آپ کی دو  بہنیں اور تھیں  پر بھائی کوئی نہ تھا،  آپ کا بچپن  دہلی کی حسام الدین حویلی میں گذرا ،  تین سال کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔  والد کے انتقال کے بعد نانا نے پرورش کی، وہ مشہور عالم تھے،   کچھ عرصہ نانا کے زیر سایہ زندگی گزری  پھر  آپ کی والدہ کا دوسرا نکاح حافظ سید عبداللطیف سے ہوگیا اور  پھر اپنے کے والد حافظ سید عبداللطیف کے ہمراہ  کلکتہ چلے گئے،  پاکستان بننے کے بعد آپ کا گھرانہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان )ہجرت کرگیا۔   ابتدائی دنوں میں  اسی شہر میں زندگی بسر کررہی  تھیں۔
بچپن ہی سے انہیں مکمل دینی ماحول ملا۔   مذہبی اور تعلیم یافتہ گھرانہ تھا ، صوم وصلوٰۃ کے ساتھ  پردے کی بھی  پابندی تھی، امی جان کو بچپن ہی سے پڑھنے  سے  لگاؤ تھا،  آپ  اور آپ  کی دیگر بہنوں نے کسی اسکول یا کالج میں نہیں پڑھا تھا۔ اس دور میں لڑکیوں کے اسکول جانے کی اتنی روایت  نہیں تھی، پھر بھی تینوں بہنوں  کی تربیت میں والدین نے خاص توجہ سے کی، اور ان کی بہت اچھے اور عمدہ طریقے سے تربیت کی۔ آپ کے والد ین نے اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری خود نبھائی جبکہ تدریس میں معاونت کے لیے ایک استاد انہیں پڑھانے گھر آیا کرتے  تھے۔ تعلیم کی مناسب تکمیل کے بعد آداب  معاشرت  اور امور خانہ داری  کی تربیت میں وقت گزرنے لگا۔
نوجوانی میں حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  کی شریک حیات بننے کا موقع نصیب ہوا ، محترمہ راشدہ عفت اور خواجہ شمس الدین  کے مابین شادی 1956ء میں ہوئی  شادی کی یہ تقریب انتہائی سادگی کے ساتھ ہوئی اور رخصتی کے بعد آپ کراچی آگئیں۔ عظیمی صاحب کے ساتھ ہر قسم کے حالات میں زندگی بسر کی۔  آپ نے عظیمی صاحب کے ساتھ چھپن برس کی مشترکہ زندگی میں  گھر کے لئے  بہت زیادہ خدمات انجام دیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ بیٹے اور چار بیٹوں  سے نوازا ہے ۔
ایک فداکار و مہربان زوجہ اور تمام مشکلات  میں  اپنے شوہر کے لئے بہترین یاور و مددگار تھیں،  روحانی مشن کی ترویج کے لئے  خدمت خلق کا یہ سلسلہ جب ایک فرد،  ایک مکان سے شروع ہواتھا تب سے آپ  نے اپنی زندگی اس کے لیے وقف کردی تھی۔     انہوں نے سلسلۂ عظیمیہ  خواتین کے ساتھ رہ کر ان کی تربیت کی۔ وہ تما م خواتین کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی طرح محبت کرتی تھیں اور قدم قدم پر ان کی راہنمائی کرتی تھیں۔
امی جان ایک رحم دل اورسخی خاتون تھیں۔ وہ ضرورت مندوں اورغریبوں کے کام آتی تھیں۔امی جان ان ہستیوں میں سے تھیں  جو اپنے حصے کاکھانا بھی دوسروں کو کھلا دیتے ہیں۔
امی جان  حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس  میں ہدیہ نعت پیش کرنے کا  مسلسل اہتمام فرماتیں۔جہاں دوچارخواتین ان کے پا س جمع ہو تیں وہ فرماتیں  چلو نعتیں پڑھ لیتے ہیں۔پھر دیکھتے  ہی دیکھتے  امی جان کے کمرے سے نعتوں کی اورصلواۃ وسلام کی پرنور صدائیں آنے لگتیں۔
امی جان ہر سال ہرمہینہ نہیں بلکہ تقریباً  ہر روز ہی نعت خوانی اورہوسکے تو میلاد کااہتمام کرلیاکرتی تھیں۔ زیرلب بھی نعت پڑھتیں۔ ذکر مصطفےٰ کے دوران ان کے  آنسو بہتے رہتے  جنہیں  وہ خاموشی سے اپنے دوپٹے کے پلو میں جذب کرتی رہتیں....
 آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ان کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہماری ماں ہم سے بچھڑ گئی ہے۔ امی جان کو اپنے بچوں سے رخصت ہوئے دو سال ہونے والے ہیں۔ 15،مارچ 2013، بمطابق 2جمادی الاول آپ  کا یوم وفات ہے ۔   آیئے....! ہم سب مل کر دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ امی جان کی مغفرت فرمائےاورانہیں جنت الفردوس  میں بہت اعلیٰ مقام عطا فرمائے اورامی جان کی اولاد کو اورعقیدت مندوں کو ان کے اعلیٰ اوصاف  اختیارکرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
سیدہ سعیدہ خاتون عؓظیمی
موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ  سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔
سعیدہ باجی سلسلہ عظیمیہ کا درخشندہ ستارہ تھیں.... مرشد کریم کی نُورِ نظر.... حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب جب بھی سعیدہ باجی کا تذکرہ فرماتے.... آپ کی آواز شفقت کے جذبات سے پُر ہوتی.... کئی مواقع پر حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا.... ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے سعیدہ کی صورت میں ایک دُرِّ نایاب عطا کیا ہے.... ایک ایسا چراغ جو سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی کو پھیلانے کا باعث ہے.... میں اس کے لئے ذاتِ باری تعالیٰ کا بہت ہی شکر گزار ہوں‘‘....
سعیدہ خاتون کی پیدائش نومبر 1938ء میں ناگپور شہر  کے علاقے ‘‘بڑا نعل صاحب’’کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔  والد محترم کا نام سید نظام علی جبکہ والدہ چھوٹی بائی کے نام سے مشہور تھیں۔ سید نظام علی نے ہندوستان کے معروف روحانی بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا آخری دور پایا۔ نظام علی اپنے پاکیزہ کردار اور شرافت کی وجہ سے نہایت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک روز اُن کے والد اپنے دوستوں کی ہمراہ تانگے پر سوار ناگپور کے بازار سے گزر رہے تھے کہ اچانک لوگوں میں شور مچ گیا۔ بابا تاج الدینؒ آرہے ہیں.... اُس وقت ناگپور کیا، پورے ہندوستان میں بابا تاج الدینؒ کی کرامات کاچرچا تھا.... جب      بابا تاج الدین ؒ شہر میں نکلتے تو آپؒ کے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم ساتھ چلا کرتا تھا.... اُس وقت بھی بازار کے لوگ کام چھوڑ کر بابا صاحبؒ کی طرف متوجہ ہوگئے.... تانگے والے نے بھی تانگہ روک لیا.... بابا تاج الدینؒ غیرمتوقع طور پر تانگے کے قریب آئے.... آپؒ کے ہاتھوں میں کیلوں کا ایک گچھا تھا.... کیلے کا یہ گچھا     بابا تاج الدینؒ نے سعیدہ خاتون کے والد کی طرف بڑھایا اور اپنے مخصوص انداز میں فرمایا  ’’لے کھالے!.... تیری اولاد نیک ہوگی‘‘....اﷲتعالیٰ نے نظام علی کو دو صاحبزادوں اورسات صاحبزادیوں سے نوازا ۔ دونوں صاحبزادے اولادوں میں سب سے بڑے تھے۔ سعیدہ باجی کا نمبر بہنوں میں چوتھاتھا۔
نظام علی دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں پانچ سال مقیم رہے۔  سعیدہ باجی تقسیمِ ہندوستان سے 15 روز پہلے ہی بڑے بھائی اور بڑی بہنوں کے ہمراہ پاکستان آگئی تھیں کیونکہ بڑے بھائی کا تبادلہ کراچی میں ہوگیا تھا۔ نظام علی، چھوٹی بائی اور سعیدہ باجی کی چھوٹی بہنیں آزادی کے ایک ماہ بعد آئے۔  سعیدہ خاتون انٹر میں زیرِ تعلیم تھیں کہ عبدالحفیظ بٹ کا رشتہ آیا اور سعیدہ باجی حفیظ بھائی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔  سن 1960ء کے اوائل میں سعیدہ خاتون حفیظ بھائی کے ساتھ مانچسٹر چلی گئیں اور تادمِ آخر وہیں مقیم رہیں۔
سعیدہ باجی اپنے نام کی طرح ایک سعید روح تھیں والدین کے لئے صالح بیٹی، بڑے بہن بھائیوں کے لئے فرمانبردار بہن اور چھوٹوں کے لئے سراپا محبت ہستی۔۔۔۔۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی شفقت و محبت نمایاں تھی لیکن تربیت کے معاملے میں موقع کی مناسبت سے سختی سے بھی پیش آتی تھیں۔ بچوں کی تربیت میں وہ سونے کے چمچے سے کھلانے اور عقاب کی نظروں سے دیکھنے پر یقین رکھتی تھیں۔
سعیدہ خاتون کو بچپن ہی سے اﷲ سے قربت اور غیب کی دنیا کے حقائق جان لینے کی جستجو رہی.... یہ جستجو انہیں قدرت کی توفیق سے ملی تھی، چنانچہ اس کی تکمیل کے لئے راستے بھی کھلتے چلے گئے.... روحانی حواس بیدار ہوئے توان پر نئے نئے رازکھلنے لگے۔سعیدہ خاتون جو محسوس کرتیں اُسے قلمبند کرلیا کرتیں.... اور وقتاً فوقتاً اپنی بڑی بہن   کو ارسال کردیا کرتیں....دسمبر 79ء میں روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا۔  سعیدہ باجی کی بہن جو کراچی میں مقیم تھیں، روحانی ڈائجسٹ کے شمارے اُن کی نظر سے گزرے تو اُنہوں نے سعیدہ باجی کی واردات وکیفیات چیف ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کوارسال کردیں۔
 روحانی ڈائجسٹ مئی 1979ء کے شمارے میں پہلی مرتبہ سعیدہ باجی کی روحانی کیفیات ’’واردات‘‘ کے  زیر عنوان  شائع ہونا شروع ہوئیں.... یوں روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے ساتھ آپ کا قلمی رشتہ  بن گیا.... پھر روحانی ڈائجسٹ کے صفحات پر آپ کی وقتاً فوقتاً تحریریں شائع ہوتی رہیں۔  سعیدہ باجی نثرو نظم میں منفرد انداز کی حامل تھیں۔ سعیدہ خاتون نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم و غزل میں بھی اپنے خیالات اور کیفیات و مشاہدات کو رقم کیا۔ مختلف پروگراموں کی رپورٹس بھی تحریر کیں۔ 
  سعیدہ خاتون عظیمی کے مضامین، واردات و کیفیات،  سفرنامے، قسط وار کہانیاں بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں، جن میں  روحانی ڈائری، روح کہانی، اندر کا مسافر، خوشبو،  جوگن، روحیں بولتی ہیں،قندیل،  گیارہ ہزار فریکوئنسی، قرآن اور تصوف ، مراقبہ کی اقسام اور معرفتِ عشق شامل ہیں۔ 
روحانی ڈائجسٹ کے مطالعے نے آپ کے دل پر بے حد اثر کیا اور آپ نے بے اختیار ہوکر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو خط تحریر کردیا.... الشیخ عظیمی صاحب نے جواب میں اجتماعی مراقبہ کرانے کی اجازت دی....سعیدہ باجی نے مانچسٹر انگلینڈ میں اپنے گھر پر محفلِ مراقبہ کا آغاز کیا تو ابتداء میں چند ملنے جلنے والے ہی اس محفل میں شریک ہوا کرتے.... 1983ء میں حضرت عظیمی صاحب انگلینڈ تشریف لے گئے اور مراقبہ ہال کا باقاعدہ افتتاح فرمایا.... اُس روز سے سعیدہ خاتون کی مصروفیات میں اضافہ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی نگرانی میں انگلینڈ کے دیگر شہروں میں بھی مراقبہ ہال قائم ہونے لگے.... 1991ء تک لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ، ہڈرز فیلڈ اور گلاسکو میں سلسلہ عظیمیہ کے تربیت یافتہ اراکین مراقبہِ ہال کے تحت روحانی مشن کی خدمات انجام دے رہے تھے.... 1991ء تک سالفورڈ مانچسٹر میں سعیدہ خاتون کے گھر پر ہی محفل مراقبہ اور روحانی کلاسز جاری رہیں.... پھر اﷲ کے کرم سے اور سلسلہ عظیمیہ کے دوستوں کے تعاون سے مراقبہ ہال کے لئے علیحدہ جگہ کا بندوبست ہوگیا.... یوں روحانی مشن بتدریج پھیلتا گیا.... آپ اکثر اپنے شوہر عبدالحفیظ بٹ کے ہمراہ کراچی میں حضور قلندر بابا اولیائؒ کے عرس مبارک کی مرکزی تقریب میں شرکت کرتیں.... پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی آپ کو خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا....  وہ گزشتہ اڑتیس سال سے انگلینڈ میں مقیم تھیں.... سعیدہ خاتون کی کوششوں سے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سالفورڑ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف Rehabilitation کے اندر حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تصنیف ’’لوح وقلم‘‘ کا انگریزی ترجمہ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی کتابوں کے انگریزی ترجمے کو بی ایس سی آنرز کے کورس میں شامل کرلیا گیا.... سعیدہ خاتون 1999ء  میں سالفورڈ یونیورسٹی کی وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئیں....
محترم سعیدہ باجی23مارچ 2003برطانیہ کے شہرمانچسٹر  میں انتقال کرگئی تھیں۔ سعیدہ باجی کے انتقال سے  خاص طورپر برطانیہ میں مقیم عظیمی  بہن بھائی بہت محبت  کرنے والی بہن ،ماں جیسی شفیق ہستی کے سایہ عاطفت سے محروم ہوئے۔  سعیدہ باجی جیسی مشن سے کمنٹ منٹ رکھنے والی بے لوث اورخدادا صلاحتیوں کی حامل ہستیاں بہت کم ہوتی ہیں۔
سعیدہ خاتون!۔۔۔۔۔ خصوصاً خواتین کے لئے ایک مثالی کردار ہے۔ پیغمبرانہ طرزِفکر سے مزّین ایک کردار جو خواتین کو رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ ایک عورت اپنی گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ کس طرح راہِ سلوک میں بھی کامیابیوں کے دروازے کھول سکتی ہے۔ سعیدہ باجی نے ثابت کردکھایا ہے کہ روحانی اور دنیاوی تقاضوں کو کس طرح متوازن اور معتدل انداز میں پورا کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ  ان کی خدمات قبول ہوں۔ان کی مغفرت ہو اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو۔آمین۔

[ماخذ : روحانی ڈائجسٹ ، مارچ 2015ء]








محمد ذیشان خان

imzeeshankhan@gmail.com http://www.facebook.com/imzeeshankhan

Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form