روحانی طلبا و طالبات
کے لیے ایک مثالی کردار
سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سیدہ سعیدہ خاتون کے وصال کو ایک سال بیت گیا۔ وقت کا پہیہ بھی کس طرح آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے کہ محبت کرنے والوں کی یادوں کو بھی اپنے بے رحم چکر میں لپیٹ لیتا ہے لیکن سعیدہ باجی کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے، اُن کی کمی اِس سال بھی حضور قلندر بابا اولیائؒ کے عرسِ مبارک کے دوران سب ہی کو نہایت شدت سے محسوس ہوئی۔ عرس میں گوکہ آپ برطانیہ سے شریک ہوا کرتی تھیں مگر یہاں کے کاموں میں اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں کہ یہ گمان کرنا محال ہوجاتا کہ آیا اُنہیں مہمان سمجھیں یا میزبان!....۔ سعیدہ باجی کی کمی کو مرشد کریم الشیخ عظیمی نے تو کچھ زیادہ ہی شدت سے محسوس کیا۔ اپنے ہاتھ سے سینچے گئے پھول کی اہمیت مالی سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔
سعیدہ باجی نثرو نظم میں منفرد انداز کی حامل تھیں اور ان کی علمی و قلمی خدمات سے اکثر قارئین کرام واقف ہیں۔ سلسلۂ عظیمیہ کے لئے ان کی خدمات کے بارے میں وقتاً فوقتاً تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔
سعیدہ خاتون کی زندگی پیغمبرانہ طرزِفکر کی حامل خاتون کی زندگی ہے۔ روحانی، معاشرتی اور خانگی قدروں میں توازن کی بہترین مثال سعیدہ خاتون میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ آئیے سب سے پہلے ان کے خانگی زندگی کے چند پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں....۔
سعیدہ خاتون کی پیدائش نومبر 1938ء میں ناگپور شہر کے علاقے ’’بڑا نعل صاحب‘‘کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی۔ والد محترم کا نام سید نظام علی جبکہ والدہ چھوٹی بائی کے نام سے مشہور تھیں۔ سید نظام علی نے ہندوستان کے معروف روحانی بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا آخری دور پایا۔ نظام علی اپنے پاکیزہ کردار اور شرافت کی وجہ سے نہایت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اﷲتعالیٰ نے نظام علی کو دو صاحبزادوں سید امام علی ہمدردؔ اور شمیم حیدر اور سات صاحبزادیوں سے نوازا جن کے نام زبیدہ خاتون، آمنہ خاتون، جمیلہ خاتون، سعیدہ خاتون، فہمیدہ خاتون، صبیحہ خاتون اور رشیدہ خاتون ہیں۔ دونوں صاحبزادے اولادوں میں سب سے بڑے تھے۔ سعیدہ باجی کا نمبر بہنوں میں چوتھا تھا۔
نظام علی دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں پانچ سال مقیم رہے۔ سعیدہ باجی تقسیمِ ہندوستان سے 15 روز پہلے ہی بڑے بھائی اور بڑی بہنوں کے ہمراہ پاکستان آگئی تھیں کیونکہ بڑے بھائی کا تبادلہ کراچی میں ہوگیا تھا اِس لئے اﷲتعالیٰ نے ان سب کو قیام پاکستان کے دوران ہونے والی خونریزی سے محفوظ رکھا۔ نظام علی، چھوٹی بائی اور سعیدہ باجی کی چھوٹی بہنیں آزادی کے ایک ماہ بعد آئے۔ یہاں یہ گھرانہ پہلے ریسٹ ہائوس میں مقیم رہا پھر بندر روڈ پر ایک فلیٹ میں منتقل ہوگیا۔ سعیدہ باجی کا اسکول میں داخلہ کرادیا گیا۔ سعیدہ باجی کو شروع سے ہی مطالعے کا بہت شوق تھا۔ اس شوق کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے سعیدہ باجی کے نام بچوں کے دو رسالے لگوا دئیے۔ میٹرک کرنے کے بعد سعیدہ باجی نے انٹر میں داخلہ لے لیا۔ انٹر میں زیرِ تعلیم تھیں کہ عبدالحفیظ بٹ کا رشتہ آیا اور سعیدہ باجی حفیظ بھائی کے ساتھ رشتۂازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ سن 1960ء کے اوائل میں سعیدہ خاتون حفیظ بھائی کے ساتھ مانچسٹر چلی گئیں اور تادمِ آخر وہیں مقیم رہیں۔ اﷲتعالیٰ نے سعیدہ باجی کو ایک صاحبزادی سیما اور تین صاحبزادوں حنیف، شہزاد اور شاہد سے نوازا۔
سعیدہ باجی اپنے نام کی طرح ایک سعید روح تھیں والدین کے لئے صالح بیٹی، بڑے بہن بھائیوں کے لئے فرمانبردار بہن اور چھوٹوں کے لئے سراپا محبت ہستی....۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی شفقت و محبت نمایاں تھی لیکن تربیت کے معاملے میں موقع کی مناسبت سے سختی سے بھی پیش آتی تھیں۔ بچوں کی تربیت میں وہ سونے کے چمچے سے کھلانے اور عقاب کی نظروں سے دیکھنے پر یقین رکھتی تھیں۔
سعیدہ خاتون ایک روحانی خاتون تھیں۔ انہیں رسول اﷲﷺ کے دربارِ اقدس میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ تمام عالمین کے لئے رحمت ہستیﷺ نے انہیں بنتِ رسول کے خطاب عطا کیا۔ بڑے بڑے اولیاء اﷲ نے سرپر دستِشفقت رکھا۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے ان کے سر پر ردا اوڑھائی۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ نے انہیں دخترِ نیک اختر کا خطاب عطا فرمایا۔ مرشد کریم الشیخ عظیمی انہیں شفقت و محبت سے اپنا لخت جگر قرار دیتے ہیں۔ خود سعیدہ باجی تحریر کرتی ہیں’’ میں جولائی 1984ء میں کراچی آئی۔ یہاں میرا بیشتر وقت باباجی (عظیمی صاحب) کے ساتھ ہی گزرتا۔ دوپہر کا کھانا ہم سب اکٹھے کھاتے۔ ایک روز دوپہر کے دو بجے تھے....۔ باباجی (عظیمی صاحب) روحانی ڈائجسٹ کے دفتر سے گھر تشریف لائے، ہم سب لوگ ڈرائنگ روم کے پردے ڈال کر پنکھے لگا کر بیٹھے تھے۔ کمرہ بڑا اچھا ٹھنڈا اور پرُسکون لگ رہا تھا۔ سب کی رائے ہوئی کہ کھانا بجائے ڈائننگ روم کے اسی کمرے میں لگادیا جائے۔ ہم سب باباجی کی تقلید پر چھوٹی میز کے اردگرد بیٹھ گئے۔ باباجی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے کو ذرا زیادہ لاڈ آنے لگا....۔ وہ باباجی کے پاس بیٹھ گئے۔ باباجی نے مسکرا کر ایک لقمہ ان کے منہ میں ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر ایک صاحبزادی بولیں ’’ابا جی مجھے بھی کھلائیے‘‘ باباجی نے مسکراکر ایک لقمہ ان کے منہ میں بھی ڈال دیا۔ دوسری صاحبزادی فوراً بول اُٹھیں ’’ابا جان میں نے کیا قصور کیا ہے؟‘‘....۔ باباجی مسکراتے ہوئے بولے ’’لو بھئی تم بھی لے لو‘‘۔ میرے دل میں شدید خواہش اُٹھی ’’کاش میں بھی باباجی کی سگی بیٹی ہوتی تو باباجی مجھے بھی اپنے ہاتھ سے کھلاتے‘‘....۔ اسی لمحے باباجی نے معنی خیز مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور روٹی کا ایک نوالہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’روحانی رشتہ ہی اصل رشتہ ہوتا ہے....۔ لو تم بھی کھالو‘‘۔ خوشی سے میری باچھیں کھل گئیں۔ اِس لقمہ کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ شام کو میں اپنے گھر آگئی۔ رات ہوتے ہی چلتے پھرتے دیکھتی رہی کہ حلق سے لے کر معدے تک کھانے کی پوری نالی پارے کی طرف سفید روشنی کی بنی ہوئی ہے اور معدے کے اندر اسی طرح کی سفید روشنی کا ایک ڈلا رکھا ہے۔ میرے ذہن میں آیا یہ باباجی کا کھلایا ہوا لقمہ ہے۔ آہستہ آہستہ روشنی کا یہ ڈلا بڑا ہونے لگا اور بڑھتے بڑھتے پورے معدے جتنا ہوگیا۔ اس روشنیوں کے لقمے کے اوپر مختلف رنگ کی روشنیوں کے دائرے بننے لگے لال، ہری، نیلی، پیلی، کاسنی، اورنج غرضیکہ ہر رنگ کی روشنیوں کے دائرے بن گئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ باباجی نے ایک لقمے کے ذریعے روحانی صلاحیتیں میرے اندر منتقل کردی ہیں‘‘۔
سعیدہ خاتون!....۔ خصوصاً خواتین کے لئے ایک مثالی کردار ہے۔ پیغمبرانہ طرزِفکر سے مزّین ایک کردار جو خواتین کو رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ ایک عورت اپنی گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں کے ساتھ کس طرح راہِ سلوک میں بھی کامیابیوں کے دروازے کھول سکتی ہے۔ سعیدہ باجی نے ثابت کردکھایا ہے کہ روحانی اور دنیاوی تقاضوں کو کس طرح متوازن اور معتدل انداز میں پورا کیا جاسکتا ہے۔
[ماخذ : روحانی ڈائجسٹ، مارچ 2004ء]
Tags:
سعیدہ خاتون عظیمی