روحانی دنیا کی مسافر


سلسلہ عظیمیہ کے دوستوں  نے یہ خبر نہایت رنج والم کے ساتھ سُنی کہ
’’سعیدہ باجی کا انتقال ہوگیا‘‘....۔
ایک لمحے کو تو یقین ہی نہیں  آیا....۔ گوکہ وہ گذشتہ دو سالوں  سے شدید علیل تھیں ....۔ لیکن دل میں  ایک اُمید کی کرن ہمارا یقین بن جاتی تھی کہ ’’سعیدہ باجی انشائِاﷲ صحتیاب ہوجائیں  گی‘‘....۔
سعیدہ باجی سلسلہ عظیمیہ کا درخشندہ ستارہ تھیں .... مرشد کریم کی نُورِ نظر....۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب جب بھی سعیدہ باجی کا تذکرہ فرماتے....۔ آپ کی آواز شفقت کے جذبات سے پُر ہوتی....۔ کئی مواقع پر حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا....۔ ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے سعیدہ کی صورت میں  ایک دُرِّ نایاب عطا کیا ہے....۔ ایک ایسا چراغ جو سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی کو پھیلانے کا باعث ہے.... میں  اس کے لئے ذاتِ باری تعالیٰ کا بہت ہی شکر گزار ہوں ‘‘....۔
گذشتہ سال سعیدہ باجی کی شدید علالت کی خبر ملی تو ہم سب بہت پریشان ہوگئے تھے....۔ دل سے بار بار یہی دعا نکلتی تھی ’’یا اﷲ سعیدہ  باجی کو صحتیاب کردیں ‘‘....۔


سعیدہ باجی ہمیشہ اپنے سلسلہ وار مضامین اکٹھے بھجوادیا کرتی تھیں .... قندیل کی قسط وار کہانی کا مسودہ بھی ہمیں  اسی طرح مل گیا تھا....۔ اُس کی آخری قسط سعیدہ باجی اپنی مصروفیات کی باعث نہیں  لکھ سکی تھیں ....۔ ہمارے پاس کہانی کا مواد کم ہوتا جارہا تھا....۔ نومبر 2001ء سے ہم نے ’’قندیل‘‘ کے صفحات 8 سے کم کرکے 6 کردئیے....۔ اسی اُمید پرکہ سعیدہ باجی جب تک صحتیاب ہوں ، کہانی تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہے....۔ لیکن سعیدہ باجی کی بیماری شدّت اختیار کرتی گئی....۔ اس کے باوجود کہ وہ شدید بیمار تھیں  اور اس دوران انہیں  کچھ عرصے کے لئے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں  بھی رکھا گیا.... انہوں  نے روحانی ڈائجسٹ کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کے باعث کسی نہ کسی طرح قندیل کی آخری قسط تحریر کرکے بھجوادیں ....۔
’’روح نامہ‘‘....۔ اس تحریر کی اشاعت کا آغاز گذشتہ سال نومبر 2002ء سے ہوا.... اس کا مکمل مواد تین سال قبل ہمیں  موصول ہوگیا تھا....۔ ’’روحِ نامہ‘‘....۔ سعیدہ باجی کی پہلی کتاب ’’روحانی ِڈائری‘‘ میں  شائع ہونے والی روحانی واردات وکیفیات کی تشریحات پر مبنی ہے۔
سعیدہ خاتون کی پیدائش نومبر 1938ء میں  ناگپور شہر میں  ہوئی.... آپ کی والدہ اور والد دونوں  سیدتھے....۔ سعیدہ خاتون کے والد نے ہندوستان کے معروف روحانی بزرگ شہنشاہِ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا آخری دور پایا....
سعیدہ باجی کی مطابق ایک روز اُن کے والد اپنے دوستوں  کی ہمراہ تانگے پر سوار ناگپور کے بازار سے گزر رہے تھے کہ اچانک لوگوں  میں شور مچ گیا۔ بابا تاج الدینؒ آرہے ہیں ....۔ اُس وقت ناگپور کیا، پورے ہندوستان میں  بابا تاج الدینؒ کی کرامات کاچرچا تھا....۔ جب      بابا تاج الدین ؒ شہر میں  نکلتے تو آپؒ کے پیچھے لوگوں  کا ایک ہجوم ساتھ چلا کرتا تھا.... اُس وقت بھی بازار کے لوگ کام چھوڑ کر بابا صاحبؒ کی طرف متوجہ ہوگئے....۔ تانگے والے نے بھی تانگہ روک لیا.... بابا تاج الدینؒ غیرمتوقع طور پر تانگے کے قریب آئے....۔ آپؒ کے ہاتھوں  میں  کیلوں  کا ایک گچھا تھا....۔ کیلے کا یہ گچھا     بابا تاج الدینؒ نے سعیدہ خاتون کے والد کی طرف بڑھایا اور اپنے مخصوص انداز میں  فرمایا
’’لے کھالے!.... تیری اولاد نیک ہوگی‘‘....۔
اس واقعہ سے بابا صاحبؒ کی عقیدت ومحبت سعیدہ باجی کے والد کے دل میں  موجزن ہوگئی.... پھر اُن کی شادی ہوئی اور سعیدہ باجی کے بڑے بھائی پیدا ہوئے.... سعیدہ باجی کے والد اور والدہ اپنے نومولود بیٹے کو لے کر حضرت بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں  حاضر ہوئے....۔ سعیدہ باجی کے مطابق اُن کی پیدائش شب قدر میں  سحری کے وقت ہوئی تھی اور اُس وقت اُن کی والدہ نے ایک نور دیکھا تھا، والدہ بتایا کرتی تھیں  کہ اُس وقت میری آنکھیں  بند تھیں ....۔ مگر مجھے ایسا نظر آرہا تھا کہ میں  کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ہوں .... جب میری نگاہ آسمان پر پڑی تو نُور کی ایک بہت روشن لکیر زمین کی طرف آئی اور بالکل میرے قریب آگئی.... اس کی روشنی اس قدر تیز تھی کہ میری آنکھیں  کھل گئیں  اور چند لمحوں  تک کھلی آنکھوں  سے بھی مجھے یہ نور نظر آتا رہا، پھر غائب ہوگیا....۔ مجھے بہت سکون ملا اور میری تکلیف جاتی رہی....۔
سعیدہ خاتون کا بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا....۔ غرض اُن کی زندگی سارے ادوار اﷲ کی محبت سے عبارت ہیں .... بچپن ہی سے اُنہیں  اﷲ کے دیدار اور غیب کی دنیا کے حقائق جان لینے کی جستجو رہی.... یہ جستجو قدرت کی توفیق سے ملی تھی، چنانچہ اس کی تکمیل کے لئے راستے بھی کھلتے چلے گئے.... روحانی حواس بیدار ہوئے تو غیب مشاہدہ بن گیا....۔ سعیدہ خاتون جو محسوس کرتیں  اُسے قلمبند کرلیا کرتیں .... اور وقتاً فوقتاً اپنی بڑی بہن (مرحومہ) کو ارسال کردیا کرتیں ....
دسمبر 79ء میں  روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا۔ سعیدہ باجی کی بہن جو کراچی میں  مقیم تھیں ، روحانی ڈائجسٹ کے شمارے اُن کی نظر سے گزرے تو اُنہوں  نے سعیدہ باجی کی واردات وکیفیات چیف ایڈیٹر روحانی ڈائجسٹ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو ارسال کردیں ۔ روحانی ڈائجسٹ مئی 1979ء کے شمارے میں  پہلی مرتبہ سعیدہ باجی کی روحانی کیفیات ’’واردات‘‘ کے مستقل کالم میں  اس کیپشن کے ساتھ شائع ہوئیں :’’یہ واردات روحانیت سے سرشار، باطنی صلاحیتوں  سے معمور ایک پاکستانی خاتون پر گزر ی ہے جو مانچسٹر انگلینڈ میں  ایک معزز عہدے پر فائز ہیں ۔ واردات کی پہلی قسط شائع کی جارہی ہے تاکہ ہمارے سامنے یہ بات آجائے کہ مرد حضرات کی طرح خواتین کو بھی اﷲ تعالیٰ نے روحانی صلاحیتوں  سے فیضیاب کیا ہے‘‘....۔
یوں  سعیدہ خاتون کی روحانی ڈائجسٹ کے ساتھ وابستگی کا آغاز ہوگیا....۔ آپ کی مرحومہ بہن روحانی ڈائجسٹ کے شمارے یہاں  سے انگلینڈ بھجواتی رہیں .... روحانی ڈائجسٹ کے مطالعے کے بعد سعیدہ خاتون کے دل نے گواہی دی کہ وہ برسوں  سے جس راستے کو تلاش کر رہی تھیں ، روحانی ڈائجسٹ کے ذریعے وہ راستہ اُنہیں  میسر آگیا ہے۔ اُن دنوں  روحانی ڈائجسٹ کے صفحات پر حضور قلندر بابا اولیائؒ کی کتاب ’’لوح وقلم‘‘ قسط وار شائع ہو رہی تھی.... لوح وقلم کی تحریر نے آپ کے دل پر بے حد اثر کیا اور آپ نے بے اختیار ہوکر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو خط تحریر کردیا.... الشیخ عظیمی صاحب نے جواب میں  اجتماعی مراقبہ کرانے کی اجازت دی....۔سعیدہ باجی بتاتی ہیں  کہ یہ میرے وہم گمان میں  بھی نہ تھا کہ مجھے اس قدر عظیم ذمہ داری نصیب ہوجائے گی....۔
سعیدہ باجی نے بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے والدین کی جانب سے یہ سوچ منتقل ہوئی تھی کہ جس امر میں  انسان کا ذاتی اِرادہ شامل نہ ہو وہ امر منجانب اﷲ ہوتا ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ مرشد کریم حضرت عظیمی صاحب کی تمام کوششوں  کا مقصد یہی ہے کہ اﷲ اور اﷲ کے رسولﷺ کے مشن کی روشنی ساری دنیا میں  پھیل جائے.... سومیں  نے مرشد کریم کا حکم منجانب اﷲ سمجھ کر دل وجان سے قبول کرلیا....۔
سعیدہ باجی نے مانچسٹر انگلینڈ میں  اپنے گھر پر محفلِمراقبہ کا آغاز کیا تو ابتداء میں  چند ملنے جلنے والے ہی اس محفل میں  شریک ہوا کرتے....۔ 1983ء میں  حضرت عظیمی صاحب انگلینڈ تشریف لے گئے اور مراقبہ ہال کا باقاعدہ افتتاح فرمایا.... اُس روز سے سعیدہ خاتون کی مصروفیات میں  اضافہ ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی نگرانی میں  انگلینڈ کے دیگر شہروں  میں  بھی مراقبہ ہال قائم ہونے لگے.... 1991ء تک لندن، برمنگھم، بریڈ فورڈ، ہڈرز فیلڈ اور گلاسکو میں  سلسلہ عظیمیہ کے تربیت یافتہ اراکین مراقبہِہال کے تحت روحانی مشن کی خدمات انجام دے رہے تھے....۔ 1991ء تک سالفورڈ مانچسٹر میں  سعیدہ خاتون کے گھر پر ہی محفل مراقبہ اور روحانی کلاسز جاری رہیں ....۔ پھر اﷲ کے کرم سے اور سلسلہ عظیمیہ کے دوستوں  کے تعاون سے مراقبہ ہال کے لئے علیحدہ جگہ کا بندوبست ہوگیا....۔ یوں  روحانی مشن بتدریج پھیلتا گیا....۔ سعیدہ باجی کی نجی اور خانگی مصروفیات بھی تھیں ....۔ اس قدر مصروفیات کے باوجود روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے ساتھ آپ کا رشتہ برقرار رہا.... آپ کی تحریروں  میں  تعطل نہیں  آیا۔ روحانی ڈائجسٹ میں  اب تک سعیدہ باجی نے کُل 68 موضوعات پر قلم اُٹھایا۔ جن میں  انفرادی مضامین کی تعداد 50تھی۔ 6 قسط وار کہانیاں  تحریر کیں ، جن کی کل 94 اقساط شائع ہوئیں ۔ سلسلہ وار مضامین کی تعداد 6 تھی۔ جو 82 حصوں  پر مشتمل تھے۔ دو سفرنامے بھی تحریر کئے جو تین قسطوں  میں  شائع ہوئے۔ مختلف پروگراموں  کی رپورٹس بھی تحریر کیں ۔ اب تک شائع ہونے والی تحریروں  کے کُل 1401 صفحات بنتے ہیں ۔ سعیدہ خاتون نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم و غزل میں  بھی اپنے خیالات اور کیفیات و مشاہدات کو رقم کیا۔ ان کی منقبتیں ، غزلیں  اور نظمیں  روحانی ڈائجسٹ کے صفحات پر وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں ۔
آپ اکثر اپنے شوہر عبدالحفیظ بٹ کے ہمراہ کراچی میں  حضور قلندر بابا اولیائؒ کے عرس مبارک کی مرکزی تقریب میں  شرکت کرتیں ....۔ پاکستان کے دیگر شہروں  میں  بھی آپ کو خطاب کے لئے مدعو کیا جاتا....۔ گزشتہ دو سالوں  میں  شدید علالت کی وجہ سے عرس مبارک کی تقریبات میں  آپ کی کمی کو سب نے ہی شدّت سے محسوس کیا....۔
سعیدہ خاتون کے مطابق وہ گزشتہ اڑتیس سال سے انگلینڈ میں  مقیم تھیں ....۔ ایک عرصے سے اُس ملک میں  رہتے ہوئے اُنہیں  وہاں  کے لوگوں  کے مزاج اور عادات واطوار کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا....۔ اب تک اُن کی کوششوں  کا دائرہ انگلینڈ میں  مقیم ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں  تک محدود رہا تھا۔ مرشد کریم کی توجہ سے اُن کے ذہن میں  یہ بات آئی کہ مغربی لوگوں  میں  روحانی علوم کی روشنی پھیلائی جائے....۔ اس سلسلے میں  سعیدہ خاتون کی کوششوں  سے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سالفورڑ یونیورسٹی میں  ڈپارٹمنٹ آف Rehabilitation کے اندر حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تصنیف ’’لوح وقلم‘‘ کا انگریزی ترجمہ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی کتابوں  کے انگریزی ترجمے کو بی ایس سی آنرز کے کورس میں  شامل کرلیا گیا.... سعیدہ خاتون سالفورڈ یونیورسٹی کی وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئیں .... جون 1999ء میں  اس کا پہلا سیشن ختم ہوا  اور امتحان کے نتائج بہت حوصلہ افزاء رہے.... یاد رہے سعیدہ خاتون کی کلاس کے تمام اسٹوڈنٹ انگلینڈ کے مقامی افراد تھے.... ڈپارٹمنٹ آف Rehabilitation کی ہیڈ نے سعیدہ خاتون سے کہا ’’تم نے اسٹوڈنٹس کے ذہن بدل دیے‘‘....۔اس کلاس کے نئے سیشن میں  گزشتہ کی نسبت تین گنا زیادہ اسٹوڈنٹس تھے....۔ سعیدہ خاتون کی علالت کے بعد سے یہ کام سلمیٰ اسلام انجام دے رہی تھیں ....
سعیدہ باجی کی طرف سے ہم سب فکر مند رہتے تھے.... اور دعا کرتے رہتے تھے کہ یا الٰہی سعیدہ باجی صحتیاب ہوجائیں  اور آئندہ سال عرس پر کراچی تشریف لائیں ....
11 مارچ کو سعیدہ باجی کا خط موصول ہوا.... ساتھ میں  ایک آرٹیکل بھی تھا.... ہم سب بے حد خوش ہوئے کہ اﷲ نے ہماری دعائیں  قبول کرلی ہیں .... اس کے کچھ دنوں  کے بعد مزید ایک اور آرٹیکل موصول ہوگیا....
لیکن 23 مارچ کو اچانک اُن کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور محبت وایثار کی علامت سعیدہ باجی اس عالمِ رنگ وبو کو چھوڑ کر عالمِ رنگ نور میں  منتقل ہوگئیں .... آپ کی تدفین مانچسٹر میں  ہوئی۔
کراچی میں  24 مارچ بعد نماز عشاء مرکزی مراقبہ ہال سرجانی ٹائون میں  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی زیرِ نگرانی مرحومہ سعیدہ باجی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔امامت کے فرائض داؤد کمال نے ادا کئے۔ اس سے قبل حضرت عظیمی صاحب نے سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی کی روح کو ایصالِ ثواب پہنچانے کے لئے فاتحہ کرائی اور اُن کے درجات کی بلندی اور مغفرت کے لئے دعا کی۔ اس موقع پر حضرت عظیمی صاحب نے حاضرین محفل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’حضرت سعیدہ خاتون عظیمی سلسلہ عظیمیہ کی اہم ستون تھیں ۔ روحانی مشن کی ترویج کے لئے انہوں  نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ لیکن یہ اﷲ کا قانون ہے کہ یہاں  جو آتا ہے اُسے اِس دنیا سے جانا بھی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبران علیہم السلام بھی اس دنیا میں  نہ رہے....۔ یہاں  تک کہ جن کے لئے اﷲ نے یہ کائنات تخلیق فرمائی یعنی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم!....۔ آپ بھی اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔ حضرت سعیدہ خاتون عظیمی نے اپنا کردار بحسن و خوبی اور خلوص و لگن کے ساتھ ادا کیا جب اُن کا کام پورا ہوگیا تو وہ اس دنیا سے عالمِ بالا میں  منتقل ہوگئیں ۔ کسی روحانی بزرگ کے انتقال کرجانے میں  بھی روحانی طلباء طالبات کے لئے بالخصوص اور عام لوگوں  کے لئے بالعموم سبق پوشیدہ ہوتا ہے....۔ وہ سبق یہ ہے کہ موت سے کسی کو رستگاری نہیں ۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنی موت کو کبھی نہیں  بھولتا‘‘....۔
موت کو ہر وقت یاد رکھنے سے مُراد یہ ہے کہ آپ اس دنیا کو سرائے سمجھیں ....۔ یہ دنیا مسافر خانہ ہے، یہاں  جو بھی آیا، جتنی بھی دیر ٹھہرا، بہرحال اُسے اس مسافر خانے سے رخصت ہونا پڑا....۔ اس دنیا میں  اﷲ نے جو جو نعمتیں  آپ کو عطا کی ہیں ، آپ اُسے استعمال کریں ۔ لیکن آپ کا دل اﷲ کی طرف متوجہ رہے۔ موت کو یاد رکھنے سے یہ بھی مُراد ہے کہ آپ اُس دنیا کے لئے زادِ راہ تیار کریں ، جہاں  آپ نے مستقل قیام کرنا ہے۔ اس زادِراہ کی تیاری کے لئے سیرتِ طیبہ کا بار بار مطالعہ کریں ۔ رسول اﷲﷺ نے جس کام کا حکم دیا ہے وہ کام کریں  اور جس سے منع فرمایا ہے اُسے چھوڑ دیں ‘‘....۔
اس پروگرام میں  کراچی اور اُس کے مضافات سے سلسلہ عظیمیہ کے اراکین خواتین و حضرات نے بڑی تعداد میں  شرکت کی۔ کراچی کے علاوہ سانگھڑ، ڈگری، شہداد پور، شکار پور، حیدرآباد، گوجرانوالہ، لاہور اور دیگر کئی شہروں  سے بھی اراکین سلسلہ عظیمیہ شریک ہوئے۔
سلسلہ عظیمیہ کے شعبہ نظم کے نگران وقار یوسف عظیمی کی تجویز پر غائبانہ نماز جنازہ کے اجتماعات کراچی کے علاوہ ابو ظہبی، لندن، نیویارک، مسی سیاگا (کینیڈا) اور دیگر شہروں  میں  منعقد ہوئے۔ اندرونِ ملک بھی سلسلہ عظیمیہ کے بیشتر سینٹرز میں  غائبانہ نماز جنازہ، قرآن خوانی اور ایصالِ ثواب کے اجتماعی پروگرام منعقد ہوئے۔
مارچ (2003ء)کے شمارے میں  آپ نے سعیدہ باجی کی غزل ’’آتشِ عشق‘‘ کے عنوان سے مطالعہ کی ہوگی۔ اس غزل کا مقطع یہ ہے؎
صبح ہونے کو ہے خالی مِرا پیمانہ ہے
ساقیا تشنہ لبی حد سے بڑھی جاتی ہے
مرشد کریم حضرت عظیمی صاحب فرماتے ہیں  کہ روحانیت کے سفر میں  کوئی منزل نہیں  ہوتی....۔ مسافر چلتا رہتا ہے....۔ چلتا رہتا ہے....۔ اور اُس کا سفر جاری رہتا ہے....۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ سعیدہ باجی کا یہ روحانی سفر جاری رہے اور وہ مسلسل اعلیٰ سے اعلیٰ درجات حاصل کرتی رہیں ۔(آمین)



[ماخذ : ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ، اپریل 2003ء]

1 Comments

  1. Allah pak Baji Saeeda khatoon k darajaat buland farmae. or un k sadqe hamari maghfirat farmae. ameen

    ReplyDelete
Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form