سلسلہ عظیمیہ اور سعیدہ خاتون

سیدہ سعیدہ خاتون
محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔
1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔
آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔


(۱) اندر کا مسافر
اس ناول کے متعلق دیباچہ میں خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر کرتے ہیں۔
’’ سعیدہ خاتون نے ’’ اندر کا مسافر‘‘ کتاب لکھ کر نوع انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مر کھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور اپنا کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔جس روز مسافر کا کردار پورا ہوجائے گا مسافر خانہ نیست ونابود ہو جائے گا۔ اﷲ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں جانا ہوگا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزاو   سزا بھگتنی ہوگی۔ کتاب ’’ اند ر کا مسافر ‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مادی حواس اور روحانی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہو تاہے۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے۔‘‘ (۶۰)
اس ناول میں ایک جگہ سعیدہ خاتون تحریر کرتی ہیں۔
’’ کہنے لگے لکھو
باادب بانصیب ۔بے ادب بے نصیب
یہی روحانیت کا پہلا اور آخری سبق ہے ۔ اس سے پہلے اورآخر کے درمیان تمام علوم مقامِ ادب کے درجات ہیں۔ یہ سبق ہمیشہ یاد رکھنا ۔روحانی علوم ادب کے دائرے میں منتقل ہوتے ہیں۔ ادب کے دائرے سے باہر روحانی علوم حاصل نہیں کئے جا سکتے ۔ آدم نے غلطی کا مرتکب ہو کر بھی ادب کا دامن نہ چھوڑا اور اﷲ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ معافی کا خواستگار ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول کرلی اور اور اسے اپنی بارگاہ سے معتوب نہیں کیا۔ مگر ابلیس نے نافرمانی کا ارتکاب کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ سے حجت کی کہ تو نے مجھے میرے راستے سے ورغلا دیا اور جس طرح تو نے مجھے راستے سے ورغلایا میں بھی تیرے بندوں کو تیرے راستے سے ورغلاؤں گا۔ ذات باری تعالیٰ کو چیلنج دینے اور حجت کرنے سے ابلیس راندۂ درگاہ ہوا۔ اس نے ادب کے دائرے سے باہر اپنے پاؤں نکال لئے تھے۔ یارکھو!ادب کے دائرے سے باہر پاؤں نکالنے والا راندۂ درگاہ ہے۔ راندۂ درگاہ کو اﷲ تعالیٰ کے علوم کی روشنی حاصل نہیں ہوسکتی۔ادب کے دائرے میں علم ہے، روشنی ہے اور ادب کے دائرے سے باہر جہالت ہے، تاریکی ہے۔ ادب کے دائرے میں روشنی کے مدارج روحانی علوم ہیں‘‘۔(۶۱)

(۲) خوشبو
خوشبو میں آپ تحریر کرتی ہیں۔
’’قرآن میں میرا اتنا زیادہ انہماک ہوگیا کہ یہ میری دھڑکن بن گیا۔ میں اسے پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ میرے دل میں  ہمیشہ یہ خیال آتا کہ اگر قرآن کے علوم سیکھے بغیر ہی مر گئی تو جاہل ہو کر مروں گی۔ میں جاہل مرنا نہیں چاہتی تھی۔ میرے نزدیک جاہلیت سب سے بڑا گناہ تھا اور ہے۔ جاہل میرے نزدیک وہ ہے جو اپنے رب کی حقیقت سے واقف نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی علوم سیکھنے کے راستے میں میرا ذہن کسی بھی رکاوٹ کو قبول نہ کرتاتھا۔ شروع ہی سے میرے اندر قرآن پڑھنے کا شوق اور لگن تھی۔ امی ابا نے بھی ہر وقت زیادہ تر اﷲ کا ذکر کیا۔ امی تو اﷲ پاک سے انتہائی محبت کرتی تھیں۔ ہر وقت اﷲ کا نام ان کے منہ سے نکلتا تھا ۔ ابا بھی ہمیشہ یہی کہتے کہ قرآن کو ترجمہ سے پڑھو اس کے اندر سب کچھ ہے۔ اس کے بعد ہمیں اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بس اسی اصول کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لو۔آج میں سوچتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت صحیح راستے پر ڈالا‘‘۔ (۶۲)

(۳)   روح کہانی
یہ کتاب سعیدہ خاتون عظیمی کے روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں 40موضوعات جمع کئے گئے ہیں۔ (۶۳)
جہاں آدمی کی ہر کوشش ہر امید اور ارادہ ناکام ہوجاتاہے وہاں ذات باری تعالیٰ پر ایک ایسا یقین ہو جاتاہے کہ غیب میں کوئی نہ کوئی ایسی طاقت ضرور موجودہے جس کے سامنے ہماری ہر کوشش اور ہر ارادہ مفلوج ہے۔ ذات واحد پر کامل یقین ہی بندے کو اس کی امیدوں پر صبر کی قوت بخشتا ہے۔ خالق کائنات نے کن کہہ کر کائنات کی تخلیق کر دی اور کائنات کی تمام مخلوق کو اس کی اپنی ذات کا شعور عطاکردیا تاکہ ہر فرد اپنے شعور کے مطابق اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے میں قدرت کے سکھائے ہوئے اصولوں کے مطابق جدوجہد کرتارہے مگر اس کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو خود مختار اور قادرِ مطلق نہیں بنایا۔ قادر مطلق صرف خالق کی ذات ہے۔ مخلوق ہر حال میں خالق کی محتاج ہے۔ بارش نہ برسے، سبزہ نہ اگے، اناج نہ پیدا ہو تو سب بھوکے مرجائیں ۔ ہوا نہ چلے تو سانس لینا ناممکن ہو جائے۔بھلا زندگی کی کونسی ایسی حرکت ہے جس میں مخلوق اﷲ کی مدد کے بغیرکام کر سکتی ہے۔ زندگی بذاتِ خود خالق کا عطا کردہ عطیہ ہے۔ جب زندگی ہی اپنی نہیںہے تو اس کی کوئی حرکت بھی اپنی کیسے ہو سکتی ہے۔ مخلوق کی اس احتیاج کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو اختیارات سونپے ہیں۔ ان اختیارات کو انس و جن اپنے ارادے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح انس و جن کے اندر دو ارادے کام کررہے ہیں۔ایک تو خالق کا ارادہ ہے جس میںکسی قسم کا ردوبدل اور تغیر ناممکن ہے۔ دوسرا انسان و جنات کا ذاتی ارادہ جس میں وہ اپنے اختیارکے مطابق رد وبدل کر سکتے ہیں۔(۶۴)

سیدہ سعیدہ خاتون نے نثر کے علاوہ نظم میں بھی صوفیانہ افکار کا اظہار کیا ہے۔ چند منتخب اشعارذیل میں پیش ہیں۔
ساقی ٔ محفل ہوں میں ، گردش میں پیمانہ مرا
بادۂ رنگین سے بھر پور میخانہ مرا
اپنی ہستی بھول کے تم خاک میں مل جاؤ گے
سوچ لو مہنگا پڑے گا تم کو یارانہ مرا
(۶۵)
اس جانِ بہاراں کی تعریف میں کیا لکھوں
نظارۂ وحداں کی تعریف میں کیا لکھوں
سورج ہے ستارہ ہے ، وہ چاند ہے عالم کا
نورانی یزداں کی تعریف میں کیا لکھوں
(۶۶)

[حوالہ جات]۶۰ عظیمی، سعیدہ خاتون، اندرکا مسافر، الکتاب پبلی کیشنز ،کراچی 1997ء ، ص۔12-13۶۱ عظیمی، سعیدہ خاتون، روح کہانی ،مکتبہ عظیمیہ ،اردو بازارلاہور 1994ء ، ص۔20۶۲ عظیمی ، سعیدہ خاتون ؛ اندرکامسافر ،محولہ بالا،ص۔58-59۶۳ عظیمی ، سعیدہ خاتون ؛خوشبو ، الکتاب پبلی کیشنز، کراچی1999،ص۔130-131۶۴ عظیمی ، سعیدہ خاتون ؛ روح کہانی، محولہ بالا،ص۔35-36۶۵ روحانی ڈائجسٹ ،اگست،2005،ص126۶۶ روحانی ڈائجسٹ ، اپریل 2004، ص138

[ماخوذ از  کتاب : سلسلہ عظیمیہ کی علمی و ادبی خدمات کا تحقیقی جائزہ ]

محمد ذیشان خان

imzeeshankhan@gmail.com http://www.facebook.com/imzeeshankhan

Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form