ایثار پیشہ سعیدہ خاتون


ایثار پیشہ

سعیدہ خاتون 

[ماخذ : روحانی ڈائجسٹ، مئی 2003ء]

سعیدہ باجی کی ابتدائی زندگی اور روحانی مشن کی ترویج میں آپ کے عظیم الشان کردار کے حوالے سے گزشتہ ماہ کے شمارے میں آپ نے ایک مضمون مطالعہ کرلیا ہوگا۔ سیّدہ سعیدہ خاتون کے روحانی شعور کی تشکیل میں اُن کے والدین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ 
رسول اﷲﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ والدین اور متعلقین اُسے عیسائی یا یہودی بنادیتے ہیں‘‘۔
یعنی بچے کے اندر اُس کی فطرت کو اُبھارنا یا دبا دینا والدین کے اختیارمیں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور فطرت یہ ہے کہ بندے کا اپنے خالق اﷲ سے ہر لمحے ایک ایسا رشتہ قائم ہے جسے کسی بھی طرح توڑا نہیں جاسکتا۔ بندے کی زندگی اور زندگی کو برقرار رکھنے والے تمام عوامل اﷲ کی رحمت سے ہی قائم ودائم ہیں۔ 
سعیدہ خاتون نے اپنے والدین کے بارے میں بتایا تھا کہ اُن کی والدہ اور والد دونوں بظاہر اتنے زیادہ عبادت گزار تو نہیں تھے اور وضع قطع میںبھی ایک عام اور سادہ انسان نظر آتے تھے لیکن دونوں کی ہی طرزِ فکر میں صوفیانہ رنگ کا غلبہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔ 


اپنے والد کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا ’’اﷲ بخشے میرے والد مرحوم کو، جن کی ایک نصیحت نے میری زندگی میں تفکر کی راہیں کھول دیں۔ وہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’بیٹی اﷲ تعالیٰ نے قرآن کو خوبصورت جزدانوں میں لپیٹ کر طاق میں سجانے کے لئے نہیں نازل کیا۔ قرآن تو انسان کی ضرورت ہے ہر آدمی جب عقل وشعور کی منزل میں قدم رکھتا ہے تو اس کی حیثیت ایک گم کردہ راہی کی سی ہوتی ہے۔ نہ اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور نہ ہی وہ جانتا ہے کہ اس کی منزل کون سی ہے۔ شعور کے راستے کا ہر قدم اس کے تجسس میں روز بروز اضافہ کئے جاتا ہے۔ ہر قدم پر ایک نیا سوال ایک نئی فکر اس کے ذہن پر اُبھرتی ہے۔۔۔۔۔ میں کون ہوں؟۔۔۔۔۔ اﷲ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ زندگی کیا ہے؟۔۔۔۔۔ موت کیا ہے؟۔۔۔۔۔ میری ابتداء انتہا کیا ہے۔۔۔۔۔ میر امقصدِ حیات کیا ہے؟۔۔۔۔۔
 ایسے اَن گنت سوالوں کے ہجوم میں شعور اس طرح جکڑ جاتا ہے جیسے کوئی ننھا منا بچہ اپنی ماں سے بچھڑ کر اجنبی لوگوں کے درمیان پہنچ جائے اور ماں کو نہ دیکھ کر اس کی حیرتوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔۔۔۔۔ قرآن کی آیات پر غور کرنے سے انسان کو اُس کے ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے‘‘۔ 
سعیدہ باجی بتاتی تھیں کہ میرے ابّا جان کہا کرتے تھے ’’بیٹی! انسان کو اﷲ تعالیٰ نے بنایا ہے اور تمام مخلوق سے زیادہ عقل وشعور عطا کیا ہے اور اس عقل وشعور کے ساتھ اسے خود اپنی ذات اور خالق کی ذات کو پہچاننے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں مگر ان تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے قدرت کے ان قوانین کا جاننا ضروری ہے جو قوانینِ فطرت بن کر ہر شئے کے ظاہر اور باطن میں کام کر رہے ہیں۔ کلامِ الٰہی کی ہر آیت قدرت کا ایک قانون ہے۔ ضروری ہے کہ بندہ اپنی زندگی کی حرکت فطرت کے اصولوں پر ڈھال لے تاکہ قدرت کا قانون اسے پکڑ نہ سکے اور ان اصولوں کو جاننے کے لئے قرآن کی آیات کا حقیقی مفہوم سمجھنا اور اس میں غور وفکر کرنا انتہائی ضروری ہے‘‘۔۔۔۔۔
ابا جان کی اس نصیحت نے میرے اندر قرآن مجید کو باترجمہ پڑھنے کا شوق پیداکردیا اور میں ہمیشہ قرآن کے معنی میں غور کیا کرتی اور اس کی آیات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی مگر یہ حقیقت ہے کہ قرآن کا ترجمہ بار بار پڑھ کر بھی ذہن کی تشنگی دور نہیں ہوتی۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے میں پورے طور پر اس کے مفہوم کو سمجھ نہیں پائی ہوں۔ یا شاید صرف مجھے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا یہاں تک کہ میری جستجوئے علم بڑھتی چلی گئی اور طلبِ شوق میں قرآن کا ترجمہ بار بار پڑھنا میری عادت بن گئی۔ شادی کے بعد انگلینڈ آئی تو یہاں کسی سے شناسائی نہ تھی۔ دن بھر اطمینان سے قرآن پڑھتی رہتی اور اس کی آیات پر غور وفکر کرتی میری جستجوئے علم کلام پاک کی گہرائی میں سفرکرتی‘‘۔ 
اپنی والدہ کے بارے میں سعیدہ باجی نے بتایا تھا ’’ہماری امی شروع ہی سے صوفی مزاج خاتون تھیں، بہت ہی کم گو۔ زیادہ کسی سے میل جو ل بھی نہ تھا۔ ان کا تمام وقت گھر ہی میں گزرتا تھا۔ ہم سب بچوں کو اُنہوں نے بہت زیادہ محبت سے پالا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی انہوں نے اپنی کسی اولاد کو تھپڑ بھی مارا ہو۔ بس ہماری غلطیوں پر ہمیں پیغمبرانہ طرزِفکر کی روشنی میںنصیحتیں  کردیا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود بھی ہم سب پر ان کا اس قدر رعب تھا کہ جتنا ابا جان کا بھی نہ تھا۔ گھر کا کوئی کام ان کی اجازت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ان کا اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ بہت زیادہ تھا۔ کبھی ہم نے ان کے منہ سے کوئی مایوس کن جملہ نہ سنا۔ ہم سب بچے ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے‘‘۔
سعیدہ باجی نے مزید بتایا تھا کہ ’’میری امی اکثر کہا کرتی تھیں۔۔۔۔۔بیٹی!۔۔۔۔۔ اﷲ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔وہ ہم سب سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ اُن کی یہ بات میرے ذہن پر نقش ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ اور میرے ذہن کی اسکرین پر اکثر ایک تصور اُبھرجایا کرتا کہ ایک پردہ ہے اس پردے کے پیچھے اﷲ پاک موجود ہیں۔۔۔۔۔ میں اُن دنوں بہت چھوٹی تھی اس لئے میں نے یہ خیال کرکے کہ میں جو کچھ دیکھتی ہوں ایسا ہی سب کو نظر آتا ہوگا، کسی سے اپنی کیفیات کا تذکرہ نہیں کیا، میرا دل ودماغ ہر وقت اﷲ کی محبت میں ڈوبا رہتا ۔۔۔۔۔ مجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ اﷲ پاک میرے دوست ہیں۔ میں اپنی عمر کے لحاظ سے اﷲ پاک کے ساتھ باتیں بھی کیا کرتی‘‘۔۔۔۔۔
سعیدہ باجی نے اپنی اُن تمام روحانی واردات وکیفیات کو اپنی کتابوں میں پیش کردیا ہے۔۔۔۔۔ انہیں یہ بشارت دی جاچکی تھی کہ اﷲ پاک اُن سے کوئی اہم کام لینا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اس ضمن میں سعیدہ باجی نے بتایا تھا:
’’میں بنیادی طور پر ایک گھریلو عورت تھی، زیادہ وقت خاوند اور بچوں کے ساتھ گزرتا تھا، چھ چھ ہفتے میں گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے میرے مستقبل کے بارے میں بشارتیں دیں لیکن میرے پاس کوئی لائحہ عمل نہ تھا۔ میں ہمہ وقت فکر مند رہا کرتی تھی اور سوچا کرتی تھی کہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ مجھ سے کروانا چاہتے ہیں، وہ کام میں کس طرح سر انجام دوں گی۔۔۔۔۔۔
پھر ایک وقت آیا کہ میرے مرشد کریم، میرے پیارے باباجی حضرت عظیمی صاحب سے میرا رابطہ ہوا اور آپ کی رہنمائی ، شفقت اور نظرِ کرم کے ساتھ مجھے سلسلۂ عظیمیہ کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔ میرے شوہر، میرے بچے، میرے روحانی بہن بھائی سب نے ہی میری حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔۔ مجھے اُمید ہے کہ جس مشن کو ہم سب نے اپنے خون سے سینچا ہے، آپ سب ہمیشہ اس کی لاج رکھیں گے اور آئندہ بھی اس مشن کو لے کر چلتے رہیں گے‘‘۔۔۔۔۔


[ماخذ : روحانی ڈائجسٹ، مئی 2003ء]


محمد ذیشان خان

imzeeshankhan@gmail.com http://www.facebook.com/imzeeshankhan

Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form