ستّار العیّوب


اللہ تعالیٰ کی  کی صفت ستارالعیوب ہمارے عیبوں  پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی جب دوسرے آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کا بشریٰ چہرہ دکھائی دیتا ہے ۔ عیب دکھائی نہیں  دیتا ۔ اللہ کی صفت ستار العیوب آدمی کے آئینے پر اپنی روشنی کا پردہ ڈال دیتی ہے ۔ اللہ کے سوا  اور کسی کی نگاہ اس کے پردے میں  نہیں  دیکھتی۔

میں  سوچنے لگی  اگر ہمارے درمیان سے اللہ تعالیٰ کی ستاری کا پردہ ہٹ جائے  تو ہر چہرہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا نظر آئے گا۔ پھر ایک دوسرے پر بھروسہ اٹھ جائے گا۔  اللہ ستار العیوب ضرور ہے ۔ مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے حد سے گزر جانے پر اللہ رحم نہیں  کرتا۔
سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی کے قلم سے تین کہانیاں  ....
===============================================


**پہلی کہانی

رات کا پچھلا پہر ہونے کو آیا۔ مجال ہے جو ذرا بھی آنکھ جھپکی ہو۔ مجھے کچھ سمجھ میں   نہیں   آرہا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ گذشتہ تقریباً دو مہینوں   سے اب تو ان کا یہ روٹین ہی بن گیا ہے ۔ ہفتے میں   تین چار دن رات رات بھر غائب رہتے ہیں  ۔کچھ پوچھو تو بڑی صفائی سے کہہ دیتے ہیں  ۔
 ‘‘ارے میری جان! تمہیں   کیا پتہ۔ روزی کمانے کے لئے مردوں   کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں  ’’۔
 جب میں   پوچھتی ہوں   کہ :
‘‘مگر آپ تو دن میں   کام پر جاتے ہیں  ۔ اب یہ رات کو بھی کیسا کام شروع ہوگیا ہے ۔ جس میں   ہم آپ کی صورت کو بھی ترس گئے ہیں’’۔ کتنے پیار سے کہتے :
‘‘ارے تم تو میرے دل کی ملکہ ہو۔ میری جان ہو۔ تمہارے عیش آرام کے لئے مجھے ایکسٹرا کام بھی تو کرنے پڑتے ہیں  نا۔
مگر میں   تو آپ کی بیوی ہوں۔میرا  اصل عیش آرام تو آپ کی قربت ہے میں   تنہا گھر میں   پہن اوڑھ کے کس کو دکھاؤں   گی’’۔
 کیسے مزے میں   ہنس کے کہتے ہیں ۔  ہم تو تمہاری نظروں   میں   بستے ہیں  ۔ جب تم آئینے میں   اپنا عکس دیکھو گی۔ تو جان لینا ہم نے تمہارے سراپاکو چھولیا ہے ’’۔
 مگر....
‘‘ اگر مگر کچھ نہیں  ۔ بس اب سونے دو تھک گیا ہوں  ۔ صبح کام پرجاناہے ’’۔
 الہٰی کیا کروں۔ میں   کیسی بیوی ہوں   وہ کیسا شوہر ہے۔ اللہ تو کہتا ہے میاں   بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں  ۔ لباس تو جسم سے قریب تر رہتا ہے ۔
ابھی تین سال پہلے کی ہی تو بات ہے ۔ میں   کالج سے اپنی سہیلی کے ساتھ باہر نکلی۔ چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک خوبرو نوجوان نے سامنے آکر بڑی بے تکلفی سے میری سہیلی کو مخاطب کیا ۔ ثانی وہ سامنے گاڑی ہے تمہیں   لینے آیا ہوں  ۔ میری سہیلی خوشی سے اچھل پڑی۔ ارے بھائی جان آج آپ کو اس وقت کیسے فرصت مل گئی۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوکر بولی:
 نشو....! یہ میرے بھائی جان ہیں  ۔ آجاؤ ہم تمہیں   بھی اپنی گاڑی میں   چھوڑ دیں   گے ۔
پھر اس نے تو جیسے گھر ہی دیکھ لیا۔ ثانی کو ہر روز لینے آجاتا ۔ سہیلی ہونے کے ناطے مجھے بھی لفٹ مل جاتی اور پھر آنے بہانے گھروں   میں   بھی آناجانا شروع ہوگیا۔  پانچ چھ مہینوں   میں   بے قراری ایسی بڑھی کہ حدوں   کو تجاوز کرنے کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ انہی  دنوں   ایک بڑا  اچھا رشتہ آیا۔ یہ ہمارے دور پرے کے رشتے دار بھی تھے۔ سارا گھر اس رشتے کے فیور میں   تھا۔ جب انہیں   پتہ چلا تو اپنی ماں بہن کو رشتہ لینے میرے گھر بھیجا۔  میری ماں   نے صاف انکار کردیا کہ ہم نے اس کا رشتہ دیکھ لیا ہے۔  بس اگلے سال اس کی ڈگری کا آخری سا ل ہے ۔ اس کے بعد اس کی وہاں   شادی ہوجائے گی۔ ہم سب گھر والے اس پر خوش ہیں  ۔ مگر یہاں   تو قصہ ہی اور تھا ۔ صاحب بہادر ہمارے عشق میں   اندھے ہورہے تھے اور سچ پوچھو تو میرا بھی دل یہاں مائل تھا۔ صورت تو ہماری ہمیشہ سے جیسی تھی سو تھی۔ اس بے ایمان نے تعریف کرکرکے ایسا شیشے میں   اتار لیا کہ اب آئینے میں   اپنی جگہ کوئی  حور نظر آنے لگی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ اس کی ماں   نے رشتے کی انکاری پر جیسے دل میں   تہّیہ کرلیا کہ یہ شادی تو ہونی ہی ہونی ہے۔ آخر اس کے بیٹے میں   کیاکمی ہے ۔
 جب باوجود بھرپور کوشش کے میرے ماں   باپ اس رشتے پر راضی نہ ہوئے۔ تو کالج آتے جاتے ایک دن یاسر کہنے لگا :
‘‘میری ماں   کہتی ہے جب لڑکی اور لڑکا بالغ ہوجائیں   تو شریعت کے قانون کے تحت وہ اپنی پسند کی شادی کرسکتے ہیں   ۔ چلو ہم کہیں   اور جاکر شادی کرلیتے ہیں  ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔
 میرا دل اس کی یہ بات سن کے کانپ گیا تھا۔ میں   نے اس سے کہا میرے ماں   باپ میرا کیسے برا چاہ سکتے ہیں  ۔ دراصل انہیں   یہ اطلاع ملی ہے کہ تم جذباتی آدمی ہو۔ لاابالی ہو۔ شادی کے بعد کی ذمہ داریاں   نبھانہ سکو گے ۔
یہ سن کر اسے کیسا جوش چڑھا تھا۔ کیا کہا میں   جذباتی ہوں   لاابالی ہوں   غیر ذمہ دار ہوں   نشو کیا تم بھی مجھے ایسا سمجھتی ہو۔ تم تو میرے دل میں   جھانک سکتی ہو۔ تم ہی بتاؤ کیا اس دل میں   تمہیں   کسی اور کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
 بھلا اس وقت میں   اس کے دل میں   کیا جھانکتی۔ اس و قت تو وہ کیوپڈ کا بت بنا ہاتھوں   میں   تیر لئے میرے سامنے کھڑا تھا جس کی نوک میرے مرکز دل میں   چبھنے لگی تھی۔
 میری ماں   کہا کرتی تھی۔ بیٹی زندگی کے اہم کاموں   میں   استخارہ کرنے کا حکم ہے۔ استخارہ اپنے کاموں   میں   اللہ پاک سے مشورہ کرنا ہے۔    میں   نے استخارہ کیا ۔  اللہ میاں   سے دعا کرتے کرتے سو گئی تھی کہ اب اس کٹھن موڑ پر میں   کون سا راستہ اختیار کروں  ۔ پہلی رات ہی میں  نے خواب دیکھا میں   ایک انجان راستے پر چل رہی ہوں  ۔ بڑی محویت کے ساتھ اپنی دھن میں   چلی جاتی ہوں  ۔ اتنے میں   ایک ناگ آکر میرے پاؤں   سے لپٹ جاتا ہے ۔ میں   چھڑاکر  آگے بڑھتی ہوں  ۔ پھر وہ ناگ آکے میرے بدن سے  لپٹنے لگتا ہے ۔ میں   پھر اسے خوفزدہ ہوکے الگ کرتی ہوں  ۔ وہ پھرمیرے گلے سے لپٹ جاتا ہے ۔ میں   اسے الگ کرنے کی کوشش کرتی ہوں  ۔ اسی خوف میں   آنکھ کھل گئی۔
دوسرے دن پھر میں   نے خواب دیکھا کہ میں   کسی نامعلوم منزل کی طرف بڑھی چلی جاتی ہوں  ۔ میری پوری توجہ اس منزل کی طرف ہے کہ اتنے میں   کیا دیکھتی ہوں   کہ جس راہ پر میں   چل رہی ہوں   اس پر سانپ ہی سانپ ہیں   ۔ جو میرے پاؤں   سے لپٹ لپٹ کے میرے راستے کی رکاوٹ بنتے جاتے ہیں  ۔ سارے خواب میں   میں   ان سانپوں   کو ہٹاتی رہی اور چلنے کے لئے اپنی راہ ہموار کرتی رہی۔ ساتھ ساتھ دل میں   یہ عزم بھی رہا کہ ان سانپوں   کے ڈر سے میں   رکنے والی نہیں  ۔
خواب سے جاگی تو دماغ کہنے لگا۔ اس سے پہلے تو کبھی میں   نے سانپ نہیں   دیکھے تھے۔ ضرور اس کا تعلق میری ازدواجی زندگی سے ہے ۔ میرے دل نے فوراً جواب دیا تم اتنی کم ہمت کب سے ہوگئی راہ کے سانپوں   سے ڈر گئیں کم ہمت اور ڈرپوک لوگ اللہ کو پسند نہیں   ہیں  ۔ ان خیالات سے میرے عزمکو اور تقویت ملی۔
 جب میں   خواب سے جاگی۔ تو سب سے پہلے میرے دل میں   خیال آیا۔ میرا نفس مجھے سانپ بن بن کے مجھے میرے کام سے باز رکھنے کی کوشش کررہا ہے ۔  میں  اپنے نفس کا کہنا نہیں   مانوں   گی جو مجھے دشمن کے بھیس میں   ڈرا رہا ہے ۔ تب میں   نے اپنے رب سے بڑی عاجزی کے ساتھ رجوع کیا۔
 اور پھر ہماری شادی ہوگئی۔
ان تین سالوں   میں   اللہ پاک نے سارے راستے ہموار کردیئے اور اب یہ باد مخالف کیسی چلنے لگی ہے ۔ چند دن اور اسی ڈھب پر گزر گئے۔ ایک رات کے پچھلے پہر جب وہ گھر لوٹا۔ میں   بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی ۔ وہ مجھے دیکھ کر چونک گیا۔ گھبرا کے بولا تو ابھی تک جاگ رہی ہے ۔ میں   نے کہا آپ کا انتظار کررہی تھی ۔ نرم سے لہجے میں   شرمندہ شرمندہ سا کہنے لگا ۔ جان من! میرا انتظار نہ کیا کر۔جاسوجا۔ اس دم مجھے یوں   لگا جیسے  میرے اور اس کے درمیان ایک پردہ سا ہٹ رہا ہے ۔ میری نگاہ اس کے چہرے پر جم کر رہ گئی۔  اس کے پیچھے اس کے خیال کی روشنی میں   اس کے گزرے لمحے کا عکس میں   نے دیکھ لیا کہ اب اس کی جانِ من میں   نہیں   بلکہ کوئی اورہے قبل اس کے کہ میرا کمزور نفس درمیان میں   آتا۔ میرا وہ عزم اس کے چہرے اور میری نگاہ کے درمیان حجاب بن گیا ۔ جس عزم کے ساتھ میں   نے اپنے رب سے اس کی لکھی تقدیر پر استقامت چاہی تھی۔ دل نے کہا اے میرے رب ہم سب تیرے کمزور بندے ہیں  ۔ جس طرح تو اپنے بندوں   کے عیب ڈھانپتا ہے مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرما اور ہمارے نفسوں   کی کمزوریاں   دور فرما۔
اس دن مجھے پتہ چلا  اللہ تعالیٰ کی ستار العیوبی کیا ہے ۔ میں   اپنے دل کا درد بھول کر اس کی ستاری پر غور کرنے لگی۔ اس کی صفت ستارالعیوب ہمارے عیبوں   پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آدمی جب دوسرے آدمی کو دیکھتا ہے۔  تو اس کا بشریٰ چہرہ دکھائی دیتا ہے ۔ عیب دکھائی نہیں   دیتا ۔ نفس کی ہر کمزوری ر وشنی کی ایک تصویر ہے ۔ گناہ کی تمام تصویریں   چہرے کے آئینے میں   منعکس ہوجاتی ہیں  ۔ اللہ کی صفت ستار العیوب آدمی کے آئینے پر اپنی روشنی کا پردہ ڈال دیتی ہے ۔ دوسرا کوئی اس کے گناہ کو نہیں   دیکھ سکتا۔اللہ کے سوا  اور کسی کی نگاہ اس کے پردے میں   نہیں   دیکھتی۔
میں   سوچنے لگی  اگر ہمارے درمیان سے اللہ تعالیٰ کی ستاری کا پردہ ہٹ جائے۔ تو ہر چہرہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا نظر آئے گا پھر ایک دوسرے پر بھروسہ اٹھ جائے گا۔ سب ایک دوسرے کے خیالات کا عکس اس کے چہرے پردیکھ لیں   گے ۔
اس دنیا میں   ہر شئے مفروضہ ہے۔اس دنیا کا انسان بھی فکشن ہے ۔ بدلتی چیز کا کیا اعتبار ۔ ہر لمحے ایک خیال روشنی بن کر اس کے اوپر چھا جاتا ہے ۔ پھر دوسرے لمحے دوسرا خیال آجاتا ہے ۔ ایک رنگ آتا ہے ۔ ایک رنگ جاتا ہے ۔ مٹی کی دنیا کی ہر چیز مٹی ہے ۔ مٹی کے کھلونوں   پر یہاں   رنگ رنگ کی پالش کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ ہے تو مٹی ہی ، وہ حقیقت ، وہ ساقی ، وہ ساغر ، وہ شراب کہاں   ہے ۔ جس کا مزا میں   نے ازل میں   چکھا تھا۔ وہ کبھی نہیں   بدلتی۔ نہ اس کا رنگ بدلتا ہے ۔ نہ اس کا مزابدلتا ہے۔
 میرے دل میں   ندا آئی پھر کیا بدلتا ہے ، پھر کیا بدلتا ہے ، پھر کیا بدلتا ہے....؟  اسی تکرار کے ساتھ ایک زور دار چھنا کے کی آواز آئی۔ مٹی کا پیالہ ٹوٹ کر کرچیں   کرچیں   ہوچکا تھا۔ میرا عزم اب بھی باقی تھا۔ اسے اپنے وعدے کا پاس تھا۔ ساقی میخانہ نے ایک گھونٹ پلا کر اسے رند کی صف میں  کھڑا کردیا تھا۔ میرے عزم نے اپنی مٹی کی دیواریں   گرتی دیکھ کر ساقی کے قدموں   میں   سرجھکا دیا ۔ ساغر نہ رہا۔ تو کیسے شراب پیوں   گی۔
تجھے تیری ستاری اور تیری کریمی کا واسطہ۔ اے میرے رب ! میرے لئے ایسا ساغر بنا دے ۔ جو کبھی نہ ٹوٹے۔ ایسی شراب پلا جس کا سرور ہمیشہقائم رہے۔
شان ِکریمی جوش میں   آگئی۔ اسی ستار العیوب نے مٹی کے ہر ٹکڑے پر اپنا حجاب ڈال دیا ۔ آج تمہیں   موت کے ساغر میں   زندگی کی شراب پلائی جائے گی ۔ نہ جس کا کبھی مزا بدلے گا، نہ ساغر بدلے گا ، نہ ساقی بدلے گا۔
میرے عزم نے ساقی کے قدموں   میں   اپنی جان رکھ دی اور ہمیشہ کے لئے فنا ہوگیا۔




 ===============================================

***دوسری کہانی

 فیروز احمد دن بھر کا تھکا ہار شام کو کام سے جب گھر لوٹا۔ تو گھر میں   داخل ہوتے ہی بیگم کو آواز دی ۔ ‘‘نادرہ او نادرہ۔ ارے بھئی کہاں   ہو تم لوگ۔ انیقہ ، رفعیہ کہاں   چلے گئے  سب کے سب ’’۔
 تینوں   ماں   بیٹیاں   گھر کے دوسرے کونوں   میں   مصروف تھیں  ۔ فیروز کے پکارنے پر نادرہ کے ماتھے پر بل آگئے۔ اس نے دل میں   کہا ۔ آگئے چیختے چلاتے۔ اب کہیں   گے میرے جوتے موزے اتارو۔ میرے لئے کھانا لگاؤ۔ کھانے میں   ذرا سا نمک مرچ اونچا نیچا ہو تو پارہ چڑھ جائے گا۔ جیسے ہم اس کی لونڈیاں   لگی ہوئی ہیں  ۔ اسی خیال کے ساتھ وہ کمرے سے نکل کر باہر آئی۔ فیروز کا سامنا ہوتے ہی چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ کا خول چڑھاتے ہوئے بولی ‘‘آگئے لاؤ کوٹ اتار دوں  ۔ انیقہ ، رفیعہ دیکھو بیٹی ابا آئے ہیں  ۔ آؤ ابا کے جوتے اتارو’’۔
 انیقہ ، رفیعہ دونوں   کالج میں   ایف اے اور بی اے کررہی تھیں  ۔ ان کا زیادہ وقت کتابوں   میں   گزرتا ۔ ماں   کی آواز سنتے ہی انیقہ کو خیال آیا۔ ابا کیا آتے ہیں   جیسے گھر میں   بھونچال آجاتا ہے ۔ رفعیہ ان کی چہیتی ہے ۔ میں   ان کی کیا لگتی ہوں  ۔ ہر وقت مجھے ڈانٹ ہی پڑتی رہتی ہے ۔اب وہی اتارے ان کے جوتے ۔ میں   کیوں   اتاروں  ۔ ساتھ ہی وہ ماں   کی آواز پر کمرے سے نکل آئی اور زور سے کہا ‘‘سلام علیکم ابا’’۔
 رفیعہ کا بی اے کا تیسرا سال تھا۔ امتحان قریب تھے۔ وہ پڑھائی کررہی تھی۔ اپنا نام پکارتے سن کر اس کے ذہن میں   خیال آیا۔ دنیا کے باپ تو ایسا نہیں   کرتے ۔ کبھی میں   نے کسی سہیلی سے نہیں   سنا کہ وہ اپنے ابو کے جوتے اتارتی ہے۔ ایک ہمارے ابا ہی جگ سے نرالے ہیں  ۔ ہل کے پانی پینا بھی ان کے لئے گنا ہے ۔ تین تین نوکرانیاں   جو ہیں   ان کے لئے۔ کالج کی فیس دیتے و قت تو ان کا دم نکلتا ہے ۔ کتنا شور مچاتے ہیں  ۔ کبھی تو جی چاہتا ہے ۔ ان کی بجائے کشکول لے کر سڑک پر کھڑی ہوجاؤں  وہاں   سے خاموشی سے تو مل جائیں   گے۔ رفیعہ نے جلدی سے کتاب ایک طرف رکھی اور یہ کہتی ہوئی باہر آگئی ۔ ابھی آئی ابا ۔ اماں   نے ابا کا کوٹ اتارا۔ ابا آرام سے صوفے پر نیم دراز ہوگئے اور مسلسل بڑبڑاتے رہے تمہیں   کیا پتہ دن بھر کام کرکے کیا حالت ہوتی ہے ۔ بڑا تھک جاتا ہوں  ۔ دونوں   بیٹیاں   جوتے موزے اتارنے لگیں  ۔ ان کا روز کا یہی معمو ل تھا کھانے سے فارغ ہوکر ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔ ماں   برتن دھونے میں   لگی تھی۔ انیقہ سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ رفیعہ پاس آکے ابا کے پاؤں   دبانے لگی۔ امتحانوں   کے بعد اس کی کلاس اندرونِ ملک کے ٹرپ پر جارہی تھی۔ اس کے لئے جلد ازجلد پیسے جمع کرانے تھے۔ اس نے پاؤں   دباتے ہوئے موقع غنیمت جانا۔ کہنے لگی ‘‘ابا کالج ٹرپ کے لئے مجھے دو ہزار روپیہ درکا ہے ’’۔
 اباکے ذہن میں   فوراً خیال آیا۔ اللہ بھی بڑا بے انصاف ہے ۔ایک بیٹا دے دیتا تو کم ازکم  اس عمر میں   کچھ کمائی کا آسرا تو ہو۔ بیٹیاں   تو ۔۔۔۔ خرچہ ہیں  ۔ اور پھر ہر وقت بے عزتی کا دھڑکا ہی لگا رہتا ہے ۔ ابا کی نظر ٹی وی پر جمی رہی۔ رفیعہ کی بات تو جیسے انہوں   نے سنی ہی نہیں   ۔
 رفیعہ اندر ہی اندر کھول اٹھی۔ یہ میرا باپ ہے یا ہٹلر۔ اپنی بات تو ہم سے منوالیتا ہے ہماری بات پر اس کے کان بہرے ہوجاتے ہیں  ۔ رفیعہ اندر کی آگ چھپاتے ہوئے اور  زیادہ تندہی کے ساتھ پاؤں   دباتے ہوئے پھر بولی ‘‘ابا مجھے ٹرپ کے پیسے کل دینے ہیں   ’’۔
 ابا کا دماغ اندر سے گھومنے لگا آج کل کی لڑکیاں   کالج تو کھیل تفریح کے لئے جاتی ہیں   اور ٹرپ یہ تو سو ائے فحاشی کے اور کچھ نہیں   ہے ۔ جانے وہاں   اکیلے میں   جوان لڑکیاں   کیا کیا گل کھلائیں  ۔ کون دیکھے گا۔ وہ اپنے چہرے کی ناگواری پر قابو پاتے ہوئے بولے ‘‘ہاں   کیا چاہئے میری لاڈلی بیٹی کو ’’۔
 لاڈلی کے لفظ پر چونک کے انیقہ نے ابا کو دیکھا۔ رفیعہ کو ان کے پاؤں   دباتے دیکھ کر اور ابا کے منہ سے لاڈلی کا لفظ اس کے لئے سن کر اس کے اندر کا حسد بول اٹھا ۔ اونہہ جب دیکھو مسکہ لگاتی رہتی ہے اور ابا بھی اس کو پیار سے بلاتے ہیں  ۔ میں   تو جیسے سوتیلی ہوں  ۔ کیا پتہ واقعی میں   سوتیلی ہی ہوں  ۔ دیکھنے میں   ہماری شکلیں   بھی تو نہیں   ملتیں  ۔
 رفیعہ بولی ‘‘ ابا کل ٹرپ کے لئے دو ہزار کی رقم چاہئے’’۔
 ابا حیرانی سے بولے ‘‘ دوہزار روپے رفیعہ ذرا سوچو تو سہی دو ہزار روپیہ تمہیں   کل تک کہاں   سے دے سکتا ہوں  ۔ تم تو ہوشیار ہو بیٹی۔ میرے پاس کہاں   سے آئے اتنے پیسے جو کچھ کماتا ہوں  ۔ تم لوگوں   کو ہی کھلا دیتا ہوں  ۔ اپنی ماں  سے پوچھو اس کے پاس ہوں   گے ۔ میرے پاس ہوتے تو مجھے نہ کرنے کی کیا ضرورت تھی’’۔
 ماں   نے جب اپنا ذکر سنا تو گھر کے دوسرے کونے سے چلاتی ہوئی آئی ‘‘کیا کہا میر پاس پیسے ہوں   گے ۔ لو اور سنو جیسے تمہارے ابا نے تو خزانوں   کے منہ کھول رکھے ہیں   ہمارے لئے ’’۔ پھر وہ دل ہی دل میں   اپنے شوہر کو کوسنے لگی۔ خدا پوچھے اس آدمی سے ۔ جب سے شادی ہوئی ہے ۔ ترسا ترسا کے مار ڈالا۔ اپنی ماں   بہنوں   کے لئے سب کچھ ہے ۔ہمارے لئے ہزاروں   حجتیں  ۔
 ابا بولے ‘‘ نادرہ ابھی پچھلے مہینے ہی میں   نے تمہیں   پانچ ہزار  روپیہ دیئے تھے خرچ کے علاوہ۔ اس میں   سے دے دو نا ’’۔
 یہ سن کر رفیعہ نے چونک کے ماں   کو دیکھا اور دل میں   اماں   بھی بڑی کائیاں   ہیں  ۔ پانچ ہزار دبا کے بیٹھی ہیں  ۔ اور بچارے ابا پر سارا دباؤ ڈالا ہوا ہے ۔
 ادھر ماں   نے اپنی تجوری کا راز کھلتے دیکھا تو اس کا دل خفا ہوگیا ۔ اندر ہی اندر کہنے لگا ۔ سو کنجوس مرے تو یہ ایک پیدا ہوا ہے ۔ اس کی تو ماں   بھی ایسی ہے ۔ باپ کون سا اچھا ہے ۔ آخر پانچ دس ہزار میرے پاس پڑے رہیں   تو اس کو کیوں   چھبتے ہیں  ۔ پیسے پاس ہوں  تو حوصلہ رہتا ہے ۔ پھر وہ ماتھے کے بل ہٹاتے ہوئے بولی ‘‘اچھا فیروز ایسا کرو۔ ایک ہزار تم دے دو ایک ہزار میں  دے دیتی ہوں۔ چلو بیٹی بھی تو دونوں  کی ہے ’’۔
 رفیعہ کی جان میں  جان آئی۔ اس نے فوراً ہاتھ پھیلا دیئے ‘‘اماں  جلدی سے ابھی لے آؤ’’۔ دل میں  کہنے لگی۔ کیا اعتبار تھوڑی دیر میں  مگر جائے۔ تو میں  کیا کرلوں  گی۔ پھر وہ باپ سے مانگنے لگی ‘‘ابا آپ بھی ابھی دیدیجئے مجھے صبح دینا ہیں’’۔
 فیروز مسکراتے ہوئے بو لے ‘‘لو بھئیابھی لے لو’’۔ یہ کہہ کر انہوں  نے جیب سے ایک ہزار روپیہ نکال کر بیٹی کو دے دیئے۔ اور دل میں  کہنے لگے ‘‘آہ ہر جگہ پیسے کی محبت ہے ۔ دنیا بڑی بری جگہ ہے ’’۔
 رفیعہ کے ہاتھ میں  دو ہزا روپیہ آئے تو اماں  ابا کے لئے اس کی سوچ ہی بدل گئی دل میں  کہنے لگی اب میرے اماں  ابا اتنے برے بھی نہیں  ہیں۔ بچپن سے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے پورا کر ہی دیتے ہیں۔
 انیقہ نے رفیعہ کے  چہرے کو گلاب کی طرح کھلتے دیکھا۔ تو سوچنے لگی آخر کو بہن ہے ۔ بہن کی خوشی اپنی خوشی ہے ۔ نادرہ نے شوہر کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھی تو اس کا دل کہنے لگا۔ فیروز اتنے بھی کنجوس نہیں  ہیں۔ انہیں  کیا پتہ کہ میں  نے ان کے پیسوں  سے بچا کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ جمع کررکھا ہے ۔ ارے آخر لڑکیوں  کی شادی بھی تو کرنی ہے۔
 دور آسمانوں  پر ہاتفِ غیبی کی ڈور ہلی۔ دوسرے سرے پر چاروں  کے دل اس نادیدہ ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ ڈور ہلی تو دل بھی حرکت میں  آگئے۔ ماں  کے دل میں  ہاتفِ غیبی کی آواز آئی۔ شوہر کے لئے تم جو کچھ سوچتی ہو۔ اگر ہم تمہارے خیالات اس پر عیاں  کردیں۔ تو رشتے کی یہ ڈور ایک جھٹکے میں  ٹوٹ جائے گی۔ پھر کون ہے جو سے جوڑ سکتا ہے ۔ فیروز کے اندر ضمیر بول اٹھا۔ رزق دینے والے ہم ہیں  یا تم ہو۔ محنت کے باوجود بھی ہم نہ دیں  تو تم کیا کرلو گے۔ تمہارے کمائے ہوئے پیسوں  کی حفاظت کرنے والے تم ہو یا ہم ہیں۔ راستے میں  ہی کوئی لٹیرا لوٹ جائے تو خالی جیب کون بھرنے والا ہے ۔
 انیقہ کے دل کی ڈور ہلی۔ تو اس کا ضمیر کہنے لگا۔ ماں  باپ اور بہن اگر تمہیں  اتنے ہی برے لگتے ہیں۔ تو ہم انہیں  اپنے پاس بلالیتے ہیں۔ تم دنیا میں  اکیلے زندگی گزار لو۔
 رفیعہ کے دل کی کھڑکی کھلی۔ ہاتفِ غیبی کی آواز آئی۔ ہم تمہارے ہاتھ پاؤں  مفلوج کرکے تمہیں  بستر پر ڈال دیں۔ تو تم اپنا کام کیسے کرو گی۔
 اسی وقت موذن نے مغرب کی اذان دی۔ انیقہ دوڑتی ہوئی اپنے ابو کے پاس آئی۔ ان کے پہلو میں  بیٹھتے ہوئے لاڈسے کہنے لگی ۔ میرے ابو تھک گئے ہیں۔ رفیعہ بھی لپک کر آئی اور دوسرے پہلو میں  بیٹھ کر باپ کا لاڈ کرنے لگی۔ ابو شولڈر دبا دوں۔
 نادرہ مسکراتی ہوئی آکر سامنے بیٹھ گئی۔ بولی اذان ہوگئی ہے ہاتھ منہ دھو کے وضو کرلو۔ نماز پڑھتے ہی کھانا لگا دوں  گی۔ سب کچھ گرم ہے ۔
 اس وقت چاروں  کے ذہن میں  ایک ہی بات سوچ رہے تھے۔ اے ہمارے رب ! تجھ سے زیادہ دانا و حکیم اور کوئی نہیں  ہے ۔اگر تو دلوں  کے خیالات کو پردوں  میں  نہ چھپاتا تو دنیا سے انسانیت اٹھ جاتی۔ ہر شخص ایک دوسرے کو پھاڑ کھاتا۔ انسانی نسل کا قیامت تک باقی رہنا ناممکن ہوجاتا۔ ہر شخص اپنے متعلق دوسرے کے خیالات ا اظہارِ رائے سے و اقف ہوکر رنجیدہ رہتا۔ کیونکہ آج تک کوئی بھی ایسا شخص نہیں  ہوا۔ جس کی تعریف تمام دنیا کے انسانوں  نے کی ہو۔ اس کی اپنی زندگی میں  بہت سارے دوستوں  کے ساتھ ایک مخالف بھی نکل ہی آتا ہے ۔ ایسے میں  کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے ۔ خوشی کی لہروں  سے خالی دنیا رنج غم اور پریشانی کی دوزخ بن جاتی۔ صفتِ ستاری روح کی حفاظت کرتی ہے ۔ تاکہ دنیاوی کثافتوں  کی ہوا بھی روح کو نہ لگے ۔ بلاشبہ اللہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔


===============================================


***تیسری کہانی


 صبح صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ نصر اللہ ابھی اپنے کمرے میں  ہی تھے۔ وہیں  سے نوکر کو آواز دی۔ گامے او گامے دیکھ تو دروازے پر کون ہے ۔ گاما دوڑتا ہوا دروازے پر گیا۔ دو منٹ بعد نصر اللہ کے کمرے کے باہر کھڑا ہوکر کہنے لگا ‘‘حضرت جی ! یہ مٹھائی وکیل صاحب لے کر آئے ہیں’’۔
 وکیل صاحب کا نام سن کے نصر اللہ فوراً بولے ‘‘وکیل صاحب کو باہر کے کمرے میں  بٹھاؤ ہم آتے ہیں  ’’ پھر جلدی جلدی منہ پر چھینٹا مارا۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے۔ دل ہی دل میں  کہنے لگے وکیل صاحب بھی عجیب پاجی آدمی ہے ۔ صبح صبح آکے مٹھائی دے رہے ہیں۔ بعد میں  بھ تو دے سکتے تھے۔ یا کسی کے ہاتھ ہی بھجوا دی ہوتی۔ صبح صبح اتنی مزے کی نیند سے جگا دیا ۔ خود تو چمگادڑوں  کی طرح سوتا کہاں  ہوگا رات بھر۔ دوسروں  کو بھی اپنی طرح سمجھا ہوا ہے۔ انہیں  خیالوں  کے ساتھ نصر اللہ وکیل صاحب کے پاس پہنچے۔ وکیل صاحب انہیں  دیکھتے ہی نہایت ادب سے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ جھک کے کہا ‘‘السلام علیکم حضرت جی صبح صبح آپ کی خدمت میں  حاضر ہونے کی معافی چاہتا ہوں۔ جانتا ہوں  کہ یہ وق آپ کی عبادت و ریاضت کا ہے ’’۔ پھر وہ مٹھائی کا بڑا سا ڈبہ نصر اللہ کی جانب بڑھاتے ہوئے بولے ‘‘ حضرت جی ! ابھی صبح کے اخبار میں  میرے بیٹے کا میٹرک کا رزلٹ نکلا ہے ۔ آپ کی دعا سے وہ سیکنڈ ڈویژن میں  پاس ہوگیا ہے ۔ سب سے پہلے یہ خوشخبری آپ کو سنانے آیا ہوں۔ آپ کی دعا کے بغیر وہ پاس ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ حضرت جی اسے قبول فرمایئے’’۔
 نصر اللہ نے بڑی محبت سے ڈبہ ہاتھ میں  لے لیا۔ اس ڈبے کے اوپر ایک چھوٹا سا لفافہ چپکا ہوا تھا۔ نصر اللہ جان گئے کہ یہ نذرانہ ہے ۔ انہو ں  نے گامے کو آواز دی ‘‘گامے او گامے یہ مٹھائی اپنی بی بی جی کو دیدے’’ وکیل صاحب ہاتھ باندھے جھکے جھکے سے کھڑے تھے۔ نصر اللہ نے دو چار وزن دار دعائیں  دیں۔ پاس ہونے والے بیٹے کے حق میں  دعا کی ۔ رز ق میں  برکت کی دعا کی۔وکیل صاحب نہایت عقیدت و احترام سے رخصت ہوئے چلتے چلتے حضرت جی کے ہاتھ بھی چومے اور پاؤں  کو بھی چھوا۔
 نصر اللہ آج سے آٹھ برس پہلے اس شہر میں  تشریف لائے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا پورا کنبہ تھا۔ بیوی اور پانچ بچے ، تین بیٹے دو بیٹیاں  سب سے بڑا بیٹااور ایک بیٹی شادی شدہ تھے بہو ساتھی رہتی تھی بیٹی داماد برابر والی کوٹھی میں  رہتے تھے۔ محلے بھر میں  وہ حضرت جی کے نام سے مشہور تھے۔ آٹھ برس پہلے جب وہ اس شہر میں  آئے۔ تو آتے ہی سب سے پہلے انہوں  نے ایک مکان کرائے پر لیا ۔ جس میں  سب اکھٹے رہتے تھے۔ نصر اللہ فجر کی نماز پڑھنے روز صبح اپنے بیٹیوں  اور داماد کے ساتھ مسجد جاتے۔ بیٹے اور داماد انہیں  حضرت جی کہہ کر بلاتے  اور ان کا بہت ادب کرتے۔ ویسے بھی وہ لمبی سی داڑھی، سفید کلف لگی ہوئی شلوار قمیض اور اس پر سفید بڑا سا رومال گلے میں  ڈالے ہو واقعی حلئیے سے حضرت جی ہی لگتے تھے۔ کچھ ہی دنوں  میں  لوگوں  نے انہیں  حضرت جی مان لیا اور پھر دو مہینے میں  انہوں  نے دو بڑی بڑی کوٹھیاں  خرید لیں۔ ایک میں  خود رہتے اور دوسری میں  بیٹی داماد۔ بیٹوں  اور داماد کا جنرل اسٹور کا بزنس تھا۔ کچھ عرصے سے گاہے بگاہے کئی کئی دن نصر اللہ گھر سے باہر نہیں  نکلتے۔ نہ مسجد جاتے نہ کسی سے ملتے۔ مشہور یہ ہوجاتا کہ وہ اللہ کے حکم پر چلّے اور ریاضتیں  کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ حج سے آنے کے بعد ہی ہوا۔ جب وہ گذشتہ سال حج پر گئے اور چھ ہفتے وہاں  رہ کر آئے تو اس کے بعد وہ تقریباً دو مہینے کسی کو نظر نہ آئے۔ ان کے داماد اور  بیٹوں  نے مشہور کردیا کہ حضرت جی کو اللہ میاں  نے اپنے گھر بلا کے بہت نوازا ہے اور وہ اسی شکرانے میں  خصوصی عبادتیں  کررہے ہیں۔ یہاں  تک کہ گامے سے بھی جب لوگوں  نے پوچھا کہ حضرت جی دکھائی نہیں  دے رہے تو وہ بولا حضرت جی تو بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ اللہ میاں  نے انہیں  کچھ دنوں  کے لئے لوگوں  سے روپوش رہنے کا حکم دیا ہے ۔ سچ پوچھو تو گامے کو بھی کبھی ان دنوں  حضرت جی دکھائی نہ دیئے۔ جو اس نے سب سے سنا وہی کہہ دیا۔ پھر اچانک ایک دن فجر کی نماز کے وقت حضرت جی سر پر پگڑی اور گلے میں  موٹے دانوں  کی لمبی سی تسبیح لٹکائے اپنے داماد اور بیٹوں  کے ہمراہ مسجد تشریف لے گئے۔ راہ میں  جس نے دیکھا عقیدت و احترام سے ہاتھ چوم لئے۔ سب سے پہلے مسجد کے راستے میں  حاجی عبدالکریم نے حضرت جی کو جاتے دیکھاتو لپک کے ان کی طرف آئے۔ نہایت احترام سے سلام کیا۔ خیریت پوچھی ۔ حضرت جی نے ہاتھ کے اشاروں  سے انہیں  جواب دیا ۔اور منہ ہی منہ میں  ورد کرتے رہے۔ داماد نے حاجی عبدالکریم کی انکساری دیکھی وہ جانتا تھا کہ حاجی عبدالکریم سید زادے ہیں۔ اور علم و عمل میں  نہایت ہی نتعلیق اور شریف ہیں۔ حضرت جی کے داماد نے جو حاجی صاحب کی ۔۔۔۔۔۔ دیکھی تو دل میں  کہنے لگا ۔ ارے حاجی صاحب آپ کی آنکھوں  پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ آپ کو اگر حضرت جی کی حقیقت معلوم ہوجائے تو آپ ان کے راستے سے گزرنا بھی پسند نہ کریں۔ آپ کو کیا پتہ یہ حضرت جی کیا شئے ہیں۔ ارے یہ چلہ وِلا کاٹ کے نہیں  آرہا ۔ یہ خبیث تو حشیش کا کاروباری ہے ۔ اپنے کاروبار کے سلسلے میں  گیا ہوا تھا۔ راستے میں  کتنے ہی پڑوسی ملے ۔ جو تیز تیز قدم مسجد کی طرف جاتے دکھائی دیئے مگر جس نے بھی نصر اللہ کو دیکھا وہ سلام کے بعد اس نے آگے چلنے کی بجائے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ مسجد میں  سارے لوگ انہیں  دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور اتنے خوش ہوئے کہ انہیں  امامت کے لئے کھڑا کردیا۔ نماز کی نیت باندھتے ہوئے بڑے بیٹے کے ذہن میں  خیال آیا۔ پتہ نہیں  ابا کے پیچھے میری نماز قبول ہوگی بھی یا نہیں۔ ابا تو پرلے درجے کا بدمعاش ہے ۔ دومہینے پہلے ایک غریب بیوہ کو حشیش کی پڑیاں  کھلا کے جہاز پر بٹھا دیا۔ وہ جہاز سے اترتے ہی گر کر مرگئی۔ اسی ڈر سے تو روپوش ہوگئے تھے۔ کہ کہیں  پولیس سراغ نہ لگالے۔ اس بدمعاش نے تو سارے گھر کو بدمعاش بنالیا ہے ۔ میں  تو اس کے پیچھے نماز کی نیت نہیں  باندھوں  گا۔ یا اللہ میاں  میری نماز اس سے الگ قبول کرلے۔
 نماز پڑھانے کے بعد حضرت جی کے آگے نذرانوں  کا ڈھیر لگ گیا۔ کچھ لوگ پھولوں  کے ہار بھی لے آئے۔ غرضکہ پھولوں  کے ہار گلے میں  لٹکائے نذرانوں  کی رقم اپنی جیب میں  سنبھالے حضرت جی اپنے گھر کو لوٹے۔ بیگم ابھی تک بستر میں  تھیں۔ اپنی جیب ان کے اوپر خالی کرتے ہوئے خوشی خوشی بولے ‘‘اری بھاگوان اٹھ کر دیکھ تو ذرا تیسرے میاں  کو کیسی عزت اللہ نے دی ہے ’’۔
 بیگم نے آنکھیں کھولیں  پھولوں  سے لدے ہوئے حضرت جی کو دیکھا اور اپنے چہرے کے پاس نوٹوں  کی گڈیاں  دیکھیں  تو خوشی سے اٹھ بیٹھی بولی حضرت جی کہاں  سے آرہے ہو۔ وہ بولے ‘‘ ابھی مسجد میں  امامت کرکے آرہا ہوں۔ دیکھ کیسی عزت ملی ہے ’’۔
 بیگم نے نوٹ جلدی جلدی سمیٹتے ہوئے کہا ‘‘اے سچی یہ تو میں  بھی دیکھ رہی ہوں’’۔ ساتھ ہی اس نے دل میں کہا حضرت جی دنیا تو دھوکہ کھا سکتی ہے ۔ مگر آپ ہم کو دھوکہ نہیں  دے سکتے ۔ جس و قت دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ آپ ہی اس بیوی کے قاتل ہو تو سر کی عزت پاؤں  میں  آجائے گی۔
 حضرت جی بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے بولے ‘‘جا اٹھ اور اپنے مبارک ہاتھوں  سے میر ے لئے چائے بنا کے لا۔ گاما اچھی چائے نہیں  بناتا۔ آج مجھے بڑا کام کرنا ہے ’’۔
 بیگم نے اشتیاق سے پوچھا ‘‘کیا کام کرناہے ’’۔
 وہ بولا ‘‘پہلے تو چائے بنا کے لا۔ پھر بتاؤ ں  گا’’۔
 بیگم جلدی سے کچن کی طرف چلدی۔ وہیں  سنک میں  اس نے ہاتھ دھوئے کلی کی اور چائے کا پانی چڑھا دیا ۔ اس پورے وقت میں  اس کے اندر خیالات کی فلم چلنے لگی۔ آج کو ن سا بڑا کام کرنا ہے اس کوآج پھر کسی کو مارنے کا پروگرام بنایا ہوگا۔ لوگ بھی تو خود ہی چلے آتے ہیں۔ آخر انہیں  پتہ تو ہے کہ حشیش کتنی بری چیز ہے پھر کیوں  کھاتے ہیں۔ چلو اگر لوگ نہ کھاتے تو ہمارا کاروبار کیسے چلتا کاروبار تو پیغمبر نے بھی کیا ہے ۔ اس میں  تو برکت ہوتی ہی ہے ۔ اللہ کی مہربانی ہے چائے لے کر وہ کمرے میں  آئی اور حضرت جی سے پوچھا ‘‘آج کیا بڑا کام ہے آپ کو ’’۔
 آج ایک جگہ سے بڑا مال آرہا ہے ۔ اس کو لینے جانا ہے۔تجھے بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا’’۔
 بیگم نے حیرت سے منہ کھولا‘‘ مجھے بھی ساتھ چلنا ہوگا۔ مگر.... مگر کیوں  ’’
 وہ دھیمی آواز میں  بولے ‘‘فیملی دیکھ کے کسی کو شک نہیں  ہوگا’’۔
 بیگم پریشان ہوکے بولی ‘‘مگر اگرکسی کو پتہ لگ جائے تو ’’۔
 حضرت جی جُز بُز ہوکے بولے ‘‘تو کیا ۔ میں  بھی تو تیرے ساتھ ہوں’’۔
 بیگم زبان سے تو کچھ کہہ نہ سکی ۔ مگر دل میں  بولی اس ابلیس کے بچے کو تو دیکھو ۔ میری ذرا پروا نہیں  ہے۔  اب یہ مجھے بھی مروائے گا ابھی تو میں  نے وہ کنگن پہنے بھی نہیں  جو کل خریدے تھے۔
 حضرت جی کچھ سوچتے ہوئے بولے ‘‘ دیکھ حاجراں  مجھے سوا دو بجے ایک جگہ پہنچنا ہے ۔ ابھی میں  اس کا پتہ نہیں  بتا سکتا۔ میرے خیال میں ایسا کرتے ہیں  کہ بڑی گاڑی میں  بہو اور دونوں  لڑکیوں  کو بھی اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہنا کے بٹھا لینا۔ تو بھی اچھے کپڑے اور زیور پہن لینا کہ لگے کہ ہم شادی میں  جارہے ہیں۔ پھر کسی کو شک بھی نہیں  پڑے گا کام تو ایک لمحے کا ہے ۔ تو لڑکیوں  سے یہی کہنا کہ ہم شادی میں  جارہے ہیں’’۔
 حاجراں  نے بہو کو اور لڑکیوں  کو جلدی جلدی کام ختم کرنے کی تاکید کی اور ڈیڑھ بجے تک شادی کے لئے تیار ہونے کی ہدایت کی۔ اس نے بڑے شوق سے کنگن پہنے۔ بہو بیٹیاں  خوب بنی سنوریں  اور اپنی دانست میں  شادی میں  شرکت کے لئے رو انہ ہوئیں۔ سوائے حضرت جی اور حاجراں  کے کسی کو حقیقت کا پتہ نہ تھا۔ حضرت جی گاڑی چلا رہے تھے۔ راستے میں  انہوں  نے گاڑی ایک جگہ روکی ۔ بچوں  نے پوچھا ‘‘ابا کیا ہوا ’’۔
 بولے ‘‘شاید انجن میں  کچھ ہے آواز سی آرہی ہے ’’ یہ کہہ کر انہوں  نے انجن کا ڈھکنا کھول دیا ۔ اتنے میں  دوسری گاڑی آکر پاس رک گئی ۔ اس میں  سے ایک شخص اترا آکر پوچھا ‘‘کیا بات ہے میں  کچھ مدد کرسکتا ہوں  ’’۔
 حضرت جی بولے ‘‘بھائی ذرا  انجن کو دیکھنا عجیب سی آواز آئی تھی چلتے چلتے ’’۔
 وہ شخص دوبارہ اپنی گاڑی کی طرف مڑا  اب کے سے اس کے ہاتھ میں  ایک اوزاروں  کا چھوٹا ساتھیلا تھا۔ وہ اس نے پاس رکھ دیا اور انجن کو چند منٹ ادھر ادھر چھیڑنے کے بعد واپس چلا گیا۔ حضرت جی نے اوزاروں  کا تھیلا انجن میں  ایک طرف رکھ دیا اور انجن کا ڈھکنا بند کردیا۔ انجن کا ڈھکنا کھلا ہونے کی وجہ سے گاڑی کے اندر بیٹھی ہوئی خواتین کچھ بھی نہ دیکھ سکیں۔ جیسے ہی انجن کا ڈھکنا بند ہوا۔ ابھی وہ شخص واپس جاہی رہا تھا اور حضرت جی ابھی دروازے کے پاس ہی پہنچے تھے کہ نہ جانے کہاں  سے پولیس آگئی۔ شاید وہ چھپ کر ساری روائداد دیکھ رہے تھے۔ وہ شخص دوسری گاڑی والا وہ بھی اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ حضرت جی نے ڈرامائی انداز میں  پوچھا ‘‘کیا بات ہے آفیسر۔ میری گاڑی میں  کچھ خرابی ہوگئی تھی۔ تو اس شخص نے میری مدد کردی۔ ہم سب شادی میں  شرکت کے لئے جارہے ہیں۔ آپ دیکھ لیں  یہ سب میری بہو بیٹیاں  اور بیوی ہے ’’۔
 ایک پولیس والا آگے بڑھا اور حضرت کو بازو کو مضبوطی سے تھام لیا۔ دو پولیس والے پیچھے پستول تانے قریب آگئے۔ دوسرے پولیس والوں  نے اسی طرح دوسری گاڑی والے شخص کو بھی اپنی حراست میں  لے لیا۔ گاڑی کے انجن کا ڈھکناکھولا گیا۔ اوزاروں  کے تھیلے میں  منشیات بھری ہوئی تھیں  ۔ گاڑی کے تمام ارکان کو ہتھکڑیاں  پہنا دی گئیں  اور پولیس کی بڑی سی وین میں  سب کو ڈال دیا گیا۔ بہو بیٹیاں  رو رو کے چیخ رہی تھیں۔ ہمیں  تو کچھ بھی پتہ نہیں  ہے ۔ ہم تو شادی کے لئے جارہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اندر ہی اندر بڑے میاں  کو کوس رہی تھیں۔ کس منحوس گھری ہم گھر سے نکلیں۔ اس بڈھے نے اپنی سفید داڑھی کا تو خیال رکھا ہوتا۔ حضرت جی حضرت جی کرتے لوگوں  کی زبان سوکھتی تھی۔ اب جیل کے پیچھے سڑے گا۔
 حاجراں  سوچ رہی تھی۔ میں  تو پہلے ہی آنے پہ خوش نہ تھی۔ کیا خبیث آدمی ہے ۔ اپنے داماد اور بیٹوں  کو لایا ہوتا۔ ہمیں  بنا سنوار کے گاڑی میں  بٹھا دیا۔حشیش کھا کے خود ہی مرگیا ہوتا تو آج یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔ پتہ نہیں  اب یہ پولیس ہمارے ساتھ کیا برتاؤ کرے۔
 وین تھانے کے دروازے پر رکی۔ تھانے میں  داخل ہوتے ہی حضرت جی نے ایک نظر اپنے کنبے پر ڈالی۔ سب کے ہاتھوں  میں  سونے کے کنگنوں  کے ساتھ ساتھ لوہے کی ہتھکڑیاں  بھی لگی تھیں۔ آنکھیں  رونے سے سرخ ہورہی تھیں۔ چہرے خوف سے سفید تھے۔ حضرت جی کی نظر ان سب کے چہروں  پر اٹک گئی اور نظر کے ساتھ ساتھ ان کا ذہن بھی وہیں  رک گیا ۔ دل نے کہا حضرت جی آپ نے ہماری صفتِ ستاری کو خوب سمجھا اور اسی وقت وہ تیورا کے فرش پر آرہے ۔ عورتوں  کی چیخیں  نکل گئیں۔ وہ زور زور سے اللہ تعالیٰ سے رحم کی درخواست کررہی تھیں۔ اے اللہ تو عیبوں  کا ڈھانپنے والا ہے ۔ ہمارے عیب ڈھانپ لے اور آئندہ کے لئے ہمیں  ایسے ظلموں  سے بچا اور اس لمحے حضرت جی کی روح کے سامنے سے مجاز کے تمام پردے ہٹ گئے۔ نہ وہاں  بیویتھی ، نہ بہو نہ بیٹے نہ بیٹیاں  فرشتے انہیں  گھسیٹتے ہوئے ان کے مونہہ پر مارتے ہوئے لئے چلے جارہے تھے۔ او ملعون تو نے ذرا خیال نہ کیا  کہ اللہ ستار العیوب ضرور ہے ۔ مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے حد سے گزر جانے پر اللہ رحم نہیں  کرتا۔ اے بے غیرت اللہ نے تجھے عزت دی اولاد  دی مگر تو نے اس کی نعمتوں  کی ناشکری کی ۔ لے اب سزا بھگت اور اپنے گناہوں  کی اصل صورت دیکھ…
Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form