سرگوشی - سعیدہ خاتون عظیمی


سرگوشی - سعیدہ خاتون عظیمی

اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی۔ یہ دنیا ایک رنگ برنگا بازار ہی تو ہے۔ میں اس بازار کی ایک دکان ہوں جہاں لوگ اپنی من پسند چیز تلاش کرنے چلے آتے ہیں۔ کوئی پالیتا ہے اور کوئی نامراد خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے۔ یہ تو گاہک کی طلب پر ہے کہ وہ کیا شے طلب کرتا ہے۔ دکاندار تو وہی فروخت کرتا ہے جو اس کی دکان پر موجود ہے۔ اس کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی گاہک واپس نہ جائے۔ اس نے دکھ کے ساتھ سوچا۔ میری دکان پر رنگین ساغر کے ساتھ ساتھ ایسے شیش محل بھی تو موجود ہیں۔ جن کے آئینوں میں عشق کی مستی میں ڈوبے ہوئے مستانے اپنا حسن و شباب دیکھ سکتے ہیں۔ اس کا دل پکار اٹھا۔
سوہنے پیا! ساغر کی رنگینی سے نظر ہٹا اور میرے شیش محل کے دروازے میں ذرا جھانک۔ ہر طرف تجھے تیرا ہی عکس نظر آئے گا۔ بانکے  پیاً اپنے دل کے تار میرے سرگم سے جوڑ دے۔ تجھے ایک ایسا مد بھرا نغمہ سناؤں جو تو نے کبھی نہ سنا ہوگا۔ یہ نغمہ میرا اسرار ہے۔ جو دل کے ساز پر گایا جاتا ہے۔ میرا راز تیرے ہی لیے ہے۔ ذرا اور قریب آجا۔ دل کی دھڑکن کہہ رہی ہے۔ شیش محل کا ہر آئینہ کورا ہے۔ جو دیوانہ اس کے اندر قدم رکھتا ہے۔ بس اپنا ہی عکس چاروں طرف ریکھتا ہے۔ نادان پیا! آئینے کی چمک پر نہ جا۔ تیری نظر دھندلا جائے گی۔ پھر تجھے اپنا عکس بھی دھندلا نظر آئے گا۔ بینائی تو اللہ ہی کی صفت ہے۔ پگلے تیری نظر خود تیرے اپنے دھندلے خاکے کو قبول نہ کرسکے گی۔ اے دلربا! آءینہ ایک ہی ہے۔ جیسے تیرے سینے میں دل ایک ہے۔ کوئی اس دل کو چار خانوں مین تقسیم کردیتا ہے اور کوئی ان  چاروں کانوں کو جوڑ کر دل میں وحدت کی تصویر کشی کرتا ہے۔ محبوب تو ایک ہی ہوتا ہے۔ جیسے تو ایک ہے۔ البتہ شیش محل کے شیشے ہزاروں ہیں۔ اے جان من! ذرا اپنا کان قریب لا۔ کوئی تیری میری سرگوشی نہ سن لے۔ جب تیری نظر شیشوں پر جاتی ہے۔ تو شیش محل کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ ذات ہر پارے کی شگاف میں اپنا سر چھپا لیتی ہے اور آئینے کے حجاب میں دل پارے کی طرح تڑپتا رہتا ہے اور نظر اس سے کھیلتی رہتی ہے۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
اس کے تصوری میں ایک چہر ابھرا۔ چودھویں کے چاند کی طرح روشن۔ گرمیوں کے سورج کی طرح چمکدار۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ نغمہ محبت اس  کی دنیا میں گونج اٹھا۔ یہاں تک کہ اس کا تصور اس کے رنگوں سے رنگین ہوگیا۔ اس نے پسندیدہ نظر اس تصویر پر ڈالی۔ جس کا ہر رنگ دل کو لبھانے والا تھا۔ نظر آہستہ آہستہ اس کے رنگوں سے بوجھل ہونے لگے۔ تصور کی روشنی چاندنی کی طرح آہستہ آہستہ ڈھلنے لگی۔ دھوپ کی تپش دھیرے دھیرے خنکی میں تبدیل ہونے لگی۔ تصویر کے رنگ مٹنے لگے۔ دل نے آواز دی۔ یہ اتار چڑھاؤ۔ یہ رنگینی یہ بےرنگی۔ یہ سب کیا ہے۔ کوئی دل کے اتنا قریب آکر پھر دل کی گہرائیوں میں کہاں گم ہوجاتا ہے۔ دریا کا پانی سمندر میں کیسے مل جاتا ہے۔ مجاز کے رنگ ایک حقیقت میں کیسے گھل مل جاتے ہیں۔ اب میں اسے کہاں ڈھنڈوں۔ اس کا تصور تو قطرہ قطرہ  بن کر بحر وحدت میں ڈوب چکا ہے۔ پھر یہ رنگین بوند سمندر میں کیسی۔ اور اسی لمحے اس کے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی۔ اور بوند سمندر کی لہروں پر مچلنے لگی۔ اس کنارے سے اسے کنارے تک دریا کی لہریں بوند کو اپنے کندھوں پر اٹھائے اٹھائے پھرتی رہی۔ اس کی نظر بوند پر جمی رہی۔ بوند کے سب رنگ گہرے ہو کر خون بن گئے۔ خون دیکھ  کر درد کا احساس اور سوا ہوگیا اس نے سوچا یہ درد کہاں سے آیا۔ میری نظر تو سمندر کی ایک بوند پر تھی۔ پھر یہ ننھی سی بوند میری نگاہ میں کیسے سما گئی۔ اس کی چاہت میرے دل کا درد کیسے بن گئی اس کی خواہش میرے ارمانوں کا خون کیسے بن گئی۔ دل سے ایک آہ نکلی اور سطح آپ پر پانی کا بلبلہ ٹوٹ گیا۔ اس کے رنگ سمندر میں مل گئے۔ درد لہروں کے دوش پر چلا تو دل کی ٹیس سارے سمندر میں گھل مل گئی۔ اس کی آہ اطمینان و سکون کا ٹھنڈا سانس بن گئی۔ خواہش کے شگاف مٹ چکے تھے۔ اس کے سب دروازے بند ہوچکے تھے۔ لا کا اندھیرا میرا تصور کے شیش محل پر چھا گیا۔ اندھیرے سے گھبرا کے اس نے آنکھیں بند کرلیں۔
اس لمحے اس کے حواس پر تصور سے خالی ہوگئے۔ لا کے اندھیرے میں اس کی ذات کی انا گم ہوگئی اور ذات تو ایک ہی ہے۔ ذات واحد۔ جو اپنی ذات میں کامل ہے اس کی نظر بھال اپنی ذات کے سمنر میں کوئی بلبلہ کیسے دیکھ سکتی ہے۔ ببلہ جو حقیقت میں پانی کی ایک بوند ہے۔ جو پھیل رک انے آپ کو اتنا بڑا کر لیتا ہے کہ اندر سے خالی ہوجاتا ہے۔ عشق مجازی بھی تو دریائے وحدت کا ایک بلبلہ ہے۔ نگاہ وحدت اس بلبلے کی خلاء کو کیسے برداشت کرسکتی ہے۔ وحدت ذات ہے اور ذات پانی ہے۔ ذات جو کامل ہے اپنی گمشدہ انا کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔ شیش محل کے چور دروازوں سے داخل ہو کر لاکے اندھیروں وک دور کردیتی ہے۔ ال اللہ کی روشنی سے شیش محل گجمگا اٹھتا ہے۔ شیش محل کا ہر آئینہ وحدت فکر کے عکس سے رنگین ہوجاتا ہے۔ جمال یار ہر آئینے کی تصویر بن جاتا ہے۔
اے دیوانے! تو ہوش میں آنے کی کوشش نہ کر۔ یہ باتیں ہوش کی کب ہیں۔ تجھے یا دنہیں فریاد عشق شیریں میں پہاڑ کھودتا تھا کہ اپنی محبوبہ کے لیے اس کے نام کی طرح شیشیں دو دھ کی نہریں، پہاڑ سے نکال دوں عقل و خرد تو مجاز ہے۔ جہاں عقل و  ہوش دم توڑ دیتے ہیں۔ وہیں سے حقیقت ابھرتی ہے۔ جان لے کہ یہ ساری دنیا۔ یہ ساری کائنات ایک شیش محل ہے۔ کائنات کی ہر تصویر فکر وحدت کا ایک رنگین عکس ہے۔ دریاے وحدت کا ایک بلبلہ تو بلبلے میں نہ جھانک۔ وہاں تو لا کا اندھیرا ہے۔ گھپ اندھیرے میں تیری نظر بےنور ہوجائے گی۔ اس اندھیرے میں الا کا جگنو پکڑ کر بند کرلے۔ تیرا شیش محل جگمگا اٹھے گا۔ پھر نظر تیرے شیش محل کے ہر آئینے میں کائنات کا عکس دیکھے گی۔




روحانی ڈائجسٹ ۔ دسمبر 1991ء سے انتخاب

یومِ وصال 23 مارچ 2019 ء کے موقع پر بطور خاص
Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form