ہے کوئی سمجھنے والا


ہے کوئی سمجھنے والا 


قرآن پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا زندہ معجزہ ہے۔


قرآن میں جہاں ایسے معاشرتی اُصول موجود ہیں جن کو اپنا کر انسان حیوانوں کی صف سے نکل کر اعلیٰ اخلاقی درجے پر فائز ہوسکتا ہے وہیں اس میں فطرت کے وہ قوانین  بھی بیان کئے گئے ہیں جن کی بنیادپر کائنات کا نظام  جاری و ساری ہے۔ روحانی ڈائجسٹ کے  ’’سید المرسلین ﷺنمبر‘‘کے لئے  بطورِ خاص لکھی گئی تحریر جو سیدہ  سعیدہ خاتون نے اپنی مادّی زندگی  کے آخری ایام میں تحریر کی۔

کسی بھی تحریر کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے مصنف کے ذہن میں اُترنا پڑتا ہے۔ کیونکہ صفحہ پر بکھرنے سے پہلے یہ تحریر اُس کے ذہن میں ہی موجود تھی۔ ذہن سے مراد مغز اور اس کا گودا نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی ذہن کا تصور اُبھرتا ہے تو ہماری سوچ ایک ایسی جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں ایک خلامیں ہم اپنے خیال کے عکس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس عکس کے اندر خیال کی حکمتوں کو پہچان جاتے ہیں۔ ذہن کے اسی عکس کو خیال کی گہرائی کا نام دیا جاتا ہے۔ جس میں فکر کے دونوں پہلو خیر اور شر کی حکمتیں خیال کے ایک نقطے میں موجود ہیں۔ جب تک یہ نقطہ نہیں کھلتا خیر اور شر کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اور جب تک مظاہرہ نہیں ہوتا۔ اس کے نفع ونقصان سے آدمی واقف نہیں ہوتا۔ نفع ونقصان سے واقفیت ہی خیال کے نقطے میں بند علوم کو شعور کی سطح پر حواس و احساسات کی صورت میں اُبھارتی ہے اور بند نقطے کے علوم شعور کی سطح پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ عقل و شعور کا بنیادی قوام تجسس ہے۔ تجسس فکر کے نقطے میں داخل ہوکر مسلسل اُسے کھلنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ تجسس کی کشش نقطے کے اندر کی روشنی کو عقل کے پردے پر بکھیر دیتی ہے اور عقل وحواس کے دائرے میں تصور کے خاکوں کو احساسات وجذبات کا لباس پہناکر آنکھوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے اور دیکھنے والا اس کے نفع ونقصان سے پوری طرح واقف ہوجاتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں اﷲ تعالیٰ کا امر اور ارادہ فطرت کے قوانین بن کر کام کر رہا ہے اور فطرت میں کوئی ردّو بدل نہیں ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں جو اس کے اسمائے الہٰیہ کے علوم ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے تمام مخلوق سے بہتر عقل وشعور عطا فرمایا ہے۔ عقل وشعور حواس کے دائرے میں احساس کا خول پہن کر کام کرتا ہے۔ احساس کے اسی خول کا نام جسم ہے۔ جو بشری شعور کو انفرادی شعور میں تقسیم کردیتا ہے۔ زندگی کے ہر زون میں بشری شعور فرد کی حیثیت سے اسمائے الہٰیہ کی فطرت کا مظاہرہ دیکھتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس کی نظر مظاہر سے نکل کر مظاہر کی حقیقت کو دیکھ لیتی ہے۔ بشری شعور کی یہی وہ معراج ہے جو اﷲتعالیٰ کے تربیت یافتہ اور انعام یافتہ پیغمبران علیہم السلام نے حاصل کرلی اور قربِ الٰہی کی نعمتوں اور لذّتوں سے نوازے گئے۔ اب قیامت تک پیغمبران علیہم السلام کے وسیلے سے نسلِ آدم اﷲ تعالیٰ کے انہی انعامات سے نوازی جائے گی۔ ایسے ہی انعام یافتہ اور خوش نصیب لوگ اولیاء اﷲ اور روحانی بندے کہلاتے ہیں جن کے ذریعے پیغمبروں کی طرزِ فکر نسل انسانی میں منتقل ہوتی رہتی ہے اور نوع انسانی کو اپنے مقصدِ حیات سے آگاہی رہتی ہے۔ اس مضمون میں ہم ان نکتوں پر غور کریں گے جن کے ذریعے انسان کا انفرادی شعور خود اپنی ذات سے اور اپنے خالق کی ذات سے واقفیت حاصل کرکے اپنے مقصدِ حیات کی معراج کو چھُو لیتا ہے۔
دنیا کی زندگی میں آدمی کو کوئی بھی چیز حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی وسیلے اور ذریعے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ عالم عالمِ اسباب و وسائل ہے۔ اس زندگی میں رہتے ہوئے ہمیں فطرت کے اُصولوں کی پیروی کرنی ہی پڑتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ فطرت اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کوئی   تغیر وتبدّل نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو دین فطرت کہا ہے۔ فطرت اسمائے الہٰیہ کے وہ قوانین ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کا نظام جاری وساری ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی نظام میں گڑ بڑ اُسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس نظام کو چلانے والے اس کے اصولوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کوئی ردّوبدل کردیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’مومن وہ ہے جس کے سینے میں اسلام کا نور داخل ہے۔ جس کے سینے میں اسلام کا نور داخل نہیں ہے وہ صرف مسلمان ہے مومن نہیں‘‘۔ قرآن کی آیات میں اﷲ تعالیٰ نے جگہ جگہ الناس اور الذین آمنو دونوں طرز تخاطب اختیار کیا ہے الناسسے مُراد عام لوگ ہیں اور الذین آمنو سے اُن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو عرفانِ نفس کے حامل ہیں اور جنہیں اپنے رب کی تجلیوں کا مشاہدہ حاصل ہے۔ قرآن میں اﷲ پاک نے دونوں کے لئے احکامات جاری فرمائے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام فطرت کا وہ نور ہے جو مومنین کے سینے میں داخل ہوکر ان کے عقل وشعور اور فراست کو جلا بخشتا ہے۔ جن کے ذریعے وہ اپنی انفرادیت میں رہتے ہوئے کائنات کے ذرّے ذرّے میں کام کرنے والی فطرت سے بھی آگاہی حاصل کرلیتے ہیں اور یہ آگاہی ان کے انفرادی حواسِوشعور کو اس معراج پر پہنچادیتی ہے۔ جہاں وہ اﷲ تعالیٰ کے اُس نور کو دیکھ لیتے ہیں جو فطرت بن کر کائنات کے ذرّے ذرّے میں کام کر رہا ہے۔ ان تمام علوم کو جاننے کا سب سے بڑ اذریعہ قرآن ہے۔ قرآن ایک ایسی دستاویز ہے جس کا مصنف خود اﷲ تعالیٰ ہے۔ مگر عالم اسباب کے قوانین کو مدِنظر رکھتے ہوئے قرآن کے دنیا میں نزول کا ذریعہ پیغمبر آخر الزمان علیہ اسلام بنے اور بذریعہ وحی یہ کلام حضرت محمدرسولِاﷲﷺ پر نازل کیا گیا۔ قرآن اﷲ کا کلام ہے اور اس کلام کی تعلیمات مکمل دینِ اسلام ہے یعنی اﷲ پاک نے وحی کے ذریعے اپنے پیارے، مخصوص اور محبوب بندے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سینے میں دینِ اسلام کا مکمل نور داخل کردیا اور انہیں بشری شعور کی معراج کی آخری حدود تک پہنچادیا۔ معراج کی اس آخری حدود کو اﷲ تعالیٰ نے مقامِمحمود کانام دیا ہے۔
قرآن کوسمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں وحی کی حقیقت جاننے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون کے آغاز میں بیان کیا جاچکا ہے کہ کوئی بھی مضمون صفحہ پر تحریر ہونے سے پہلے مصنف کے ذہن میں ہوتا ہے اور ذہن کا یہی عکس آہستہ آہستہ تحریر بن کر الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ خالق کائنات اپنی ذات وصفات میں نور ہے۔ اس کی ہر صفت نور ہے۔ اس کا علم، اس کاکلام، اس کی نظر غرضیکہ جس صفت کا بھی تصور ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے۔ اﷲ پاک کی ذاتِ اقدس میں وہ صفت نور بن کر سمائی ہوئی ہے اور اسے اپنی ذات وصفات پر پوری طرح قدرت حاصل ہے۔ مخلوق اپنی ذات وصفات کے لئے اﷲتعالیٰ کی محتاج ہے۔ اﷲ کا نور کائنات کی انرجی ہے جس کے ساتھ کائنات کا ہر فرد منسلک ہے اور حرکت میں ہے۔ وحی اﷲ تعالیٰ کی فکر کا نور ہے۔ اس نور کے اندر قرآن کے مکمل علوم ہیں۔ یہ علوم نوری تمثلّات کی صورت میں ہیں۔ نوری تمثلّات لوح محفوظ کے نوری نقوش ہیں۔ یہ نقوش اﷲ تعالیٰ کے ارادے کے وہ خاکے ہیں۔ جس ارادے کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی۔ اﷲ تعالیٰ کا کائنات کی تخلیق کا ارادہ سب سے پہلے لوح محفوظ پر ظاہر ہوا اور اﷲ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق کائنات کی تخلیق کا مکمل نقشہ نوری تمثلات کی صورت میں نقش ہوگیا۔ یہ لوح اوّل کہلاتا ہے۔ اس میں کائنات کی ہر شئے ساکت ہے اور اپنے وجود سے بے خبر ہے۔ ا س کے بعد تخلیق کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ اس مرحلے میں اﷲ تعالیٰ کے کُن کہنے سے کائنات کی حرکت کا آغاز ہوا۔ کائنات کے علوم کے نوری تمثلات لوحِ اوّل سے تنزل کرکے لوح دوم پر اُتر آئے اور ان نقوش کے اندر کُنکانور شامل ہوگیا۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ امرِ کُن کے نور سے حرکت میں آگیا اور کائنات نے وجودی صورت اختیار کرلی۔ قرآن کے تمام حروفِ نورانی لوح محفوظ کی وہ تحریریں ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے علوم کا پہلا نقش ہے۔ انہی حروف کا پھیلائو قرآن کی مکمل تحریریں وآیات ہیں۔ حروفِ نورانی یا حروفِ مقطعات اﷲ تعالیٰ کے امر کُن سے وجود میں آئے۔ کُن اﷲ تعالیٰ کے ارادے کی قوت ہے۔ جو حرف کُن کی صورت میں لوح اوّل کے نوری تمثّلات کے لئے اﷲ پاک کا حکم بن کر نازل ہوا اور اس حکم کی تفصیل لوحِ دوم پر قرآن کے حروت مقطعات کی صورت میں نازل ہوئی۔ 
نزول قرآن کے متعلق قرآن سے چند آیتیں ہم یہاں درج کرتے ہیں تاکہ وحی کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
-1 سورئہ قدر میںبیان کیا گیا ہے ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو اُتارا ہے شب قدر میں۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ شبَ قدر کیا ہے۔ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے‘‘
-2 سورئہ الشعراء (آیت 193-192) ’’بلاشبہ یہ کتاب رب العالمین کی اُتاری ہوئی ہے۔ اُترا ہے اسے لے کر روح الامین (حضرت جبریل علیہ السلام) آپ کے قلب پر‘‘۔
-3 سورئہ بنی اسرائیل (آیت 106) ’’اور قرآن کوہم نے جدا جدا کرکے نازل کیا۔ تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے اُتارا ہے‘‘۔
-4 سورئہ البروج (آیت۔ 22-21) ’’بلکہ وہ کمال شرف والا قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے‘‘۔
ان آیات میں حضور پاکﷺ پر وحی کے ذریعے قرآن نازل ہونے کے مختلف مراحل بیان کئے گئے ہیں۔ سورئہ قدر میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن شب قدر میں نازل کیا گیا۔ سورئہ بنی اسرائیل میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو جدا جدا کرکے اور تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا۔ یہ دونوں آیات ایک دوسرے سے قطعی اختلاف رکھتی ہیں۔ بلاشبہ اﷲ کا کلام برحق ہے اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کی باریکیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضور پاکﷺ کے لاشعور میں قرآن پورا کا پورا شب قدرمیں نازل کردیا گیا۔ مگر چونکہ لاشعور کی اسپیڈ شعور سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے جیسا کہ سورئہ قدر میں میں بیان کیا گیا ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ ہزار ماہ میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں بنتی ہیں۔ اس طرح شبِقدر برابر ہوئی ساٹھ ہزار دن اور رات کے۔ دنیاوی شعور، لاشعور کے علوم کو اس اسپیڈ پر معنی پہنچانے کی سکت نہیں رکھتا۔ لہٰذا دنیا میں قرآن تیئس سال میں نازل ہوا اور لاشعور سے قرآن کے انوار وتجلیات حضور پاکﷺ کے قلبِ اطہر میں تیس سال میں ذخیرہ کئے گئے۔ مثال کے طور پر دودھ سے بھرئے ہوئے جگ سے دودھ پینے کے لئے اُسے گلاس میں اُنڈیلا جاتا ہے۔ جب گلاس بھرجاتا ہے تو دودھ پینے سے لے کر دوسرا گلاس بھرنے تک ایک وقفہ ہوجاتا ہے۔ گلاس اپنی سکت میں جگ سے چھوٹا ہے۔ اسی طرح شعور انسانی بھی اپنی سکت میں لاشعور سے چھوٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کا کلام شعور پر وقفہ وقفہ سے نازل ہوا۔ بلاشبہ اﷲ کا کلام برحق ہے۔ صرف اسے غور وفکر کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے وحی کی طرزوں کوسمجھنا ہوگا۔ وحی اﷲ تعالیٰ کی وہ فکر اور تجلّی ہے جس تجلّی کے اندر قرآن کے مکمل علوم محفوظ ہیں۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے اس امانت کو آسمان وزمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا۔ مگر سب نے اسے اُٹھانے سے انکار کردیا کہ ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ مگر انسان نے اسے اُٹھالیا۔ یہ ظالم اور جاہل ہے‘‘۔ 
غور طلب بات ہے کہ جس امانت کو اُٹھانے سے آسمان زمین اور پہاڑ ڈر گئے کہ ہم میں اس امانت کو اُٹھانے کی قوت نہیں ہے۔ اس امانت کو انسان نے اُٹھالیا۔ پھر بھی اسے ظالم اور جاہل کہا جارہا ہے۔ یہ امانت اسمائے الہٰیہ کے علوم ہیں۔ جن کی دستاویز قرآن ہے۔ اﷲ پاک کے نزدیک ظالم اور جاہل وہ ہے جو اسمائے الہٰیہ کے علوم جاننے کی کوشش نہیں کرتا اور صرف دنیاوی زندگی کے تقاضوں کو اپنا مقصدِ حیات بنالیتا ہے۔ ایسے افراد اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہیں جو خود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں۔ جہالت انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی سنت کے قوانین پر کائنات کا نظام جاری وساری ہے۔ یہ قوانینِفطرت ازل سے ابد تک کائنات کے دائرے میں بغیر کسی ردّوبدل اور رکاوٹ کے کام کر رہے ہیں۔ فطرت کے قوانین ونظام کے دلائل ہم اپنی دنیاوی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں۔ اس دنیا میں بھی ایک جاہل اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ میں نہایت فرق دکھائی دیتا ہے۔ ایک ڈاکٹر کی جو قدر ومنزلت معاشرے میں ہے وہ کسی جاہل کی نہیں ہوسکتی۔ اگر ایک جاہل کو کسی مجبوری کی بناء پر بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا تو وہ بڑا ہوکر اپنے ارادے اور ہمت کے ساتھ بھی تو تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ اﷲ پاک کی رحمت وفضل ہر نیک کام کرنے والے کے ساتھ ہے۔ قدرت اسے وسائل مہیا کرہی دیتی ہے اور اس قسم کی مثالیں ہم اپنی زندگی میں کتنی ہی مرتبہ دیکھ لیتے ہیں۔ اﷲ پاک کے نزدیک ایک جاہل اگر زندگی بھر علم سے بے بہرہ رہتا ہے تو یقینا اس کا ذمّہ خود اسی پر ہے اور وہ خود اپنے نفس کا دشمن ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی امانت یعنی اسمائے الہٰیہ کے علوم اور دنیاوی علوم میں کیا فرق ہے اور اس فرق کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اﷲ پاک اپنی صفات میں علیم ہے۔ تمام علم اﷲ ہی کے پاس ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے علوم کے خزانوں سے آدم کو کچھ علم عطا کیا۔ جسے اس نے اسمائے الہٰیہ کے علوم کا نام دیا ہے ۔ اگر اﷲ کسی وجہ سے آدم سے یہ علم چھین لے۔ تو آدم جاہل رہ جائے گا۔ کیونکہ علم آدم کی صفت نہیں ہے۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفت سے اسے کچھ حصہ علم کا عطا کیا ہے۔ جب بندہ شعوری طور پر اس حقیقت کو سمجھ لیتا اور اس کا اعتراف کرلیتا ہے تو وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے پہلے ان کا رُخ اﷲ تعالیٰ کی جانب موڑ دیتا ہے کہ اﷲ پاک نے ہی اسے اس کی توفیق دی ہے۔ وہ اپنے ہر قول وفعل میں اﷲپاک کو شامل رکھتا ہے۔ تب اس کے تمام علم اور اعمال وافعال اﷲ تعالیٰ کے ارادے کے عین مطابق ہوجاتے ہیں اور اس کی غلطیوں پر رحمتِ خداوندی اپنا پردہ ڈھانپ دیتی ہے نہ وہ دنیا میں رُسوا اور غمگین ہوتا ہے نہ آخرت میں۔ مگر جب کوئی بندہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنے اعمال کا رُخ خود اپنی ذات کی جانب موڑ دیتا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے اور اپنے کاموں میں اﷲ پاک کے تصّور کو شامل نہیں کرتا تب اس کے تمام اعمال وافعال خود اس کی اپنی ذاتی انا کے دائرے میں انجام پاتے ہیں اور آدمی کا ارادہ اور اﷲ کے ارادے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے سمندر سے ایک قطرہ باہر نکل کر اس بات کا دعویٰ کرے کہ میں ہمیشہ قائم اور  تر  رہونگا۔ یہ سراسر اس کے اپنے نفس کا دھوکہ ہے۔ بھلا ایک قطرے میں کتنا پانی ہوتا ہے۔ ہوا کا ایک جھونکا ،دھوپ کی ایک معمولی شعاع ایک لمحے میں اس کے اندر کے پانی کو سُکھادیگی اور قطرے کا وجود فنا ہوجائے گا۔ اس کے تمام دعوے باطل ہوجائیں گے۔مگر قطرہ سمندر سے مل جائے تو سمندر اُسے ہمیشہ پانی مہیا کرتا رہے گا اور وہ کبھی نہیں سوکھے گا۔ انسان کی ذاتی انا یا نفس قطرہ ہے اور اﷲ پاک کی ہستی سمندر ہے۔ تمام پیغمبروں نے ہمیں یہی تعلیم دی کہ ہر وقت اﷲ کا تصور دل میں قائم رکھیں۔ اﷲ کا تصور ہمارے تمام خیالات کو صحیح معنی پہنانے میں مدد دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے غلطیوں کا احتمال کم رہ جاتا ہے۔ ایسے بندوں سے نسل انسانی بھی فائدہ اُٹھاتی ہے اور خود وہ بھی اپنی ذات میں پرسکون رہتے ہیں۔ 
دنیاوی زندگی کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ انسان کے انفرادی شعور کی پیدائش اس دنیا میں ہوئی۔ قرآن کے علاوہ تمام آسمانی کتابوں کی تعلیمات میں اسی بات کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے کہ آدم وحّوا جنت سے نکل کر اس دنیا میں آئے۔ مگر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جنت میں گزاری ہوئی ایک طویل زندگی کی کوئی یادداشت ہمارے ذہن میں باقی نہیں ہے۔ گزشتہ زندگی میں غور وفکر کرنے کے باوجود بھی ہمیں کچھ یاد نہیں آتا۔ بلکہ یہی لگتا ہے کہ ہم تو اسی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ فرد کے انفرادی شعور کا آغاز اسی دنیا سے ہوا ہے۔ فرد کی حیثیت سے گزاری ہوئی زندگی میں پچاس سال ساٹھ سال پہلے کی باتیں بھی کچھ نہ کچھ یاد رہتی ہیں۔ مگر اپنی پیدائش سے پہلے کی باتیں ہمیں قطعی یاد نہیں آتیں۔ حتیٰ کہ ماں کے پیٹ کے اندر اپنے وجود سے بے خبری ہے۔ یہی بے خبری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ماں کے پیٹ کے اندر بچے کے شعور اور ماں کے پیٹ سے باہر پیدا ہونے کے بعد بچے کے شعور میں فرق ہے۔ اگر دونوں شعور کے باہمی رابطے کو بحال کردیا جائے تو ماں کی پیٹ کی زندگی کی یادداشت پیدائش کے بعد فرد کے ذہن میں منتقل ہوتی رہے گی۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں جب کوئی شخص اس زندگی میں رہتے ہوئے بھی گزشتہ زندگی کی باتیں کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی ذہن میں بہت سے خانے ہیں اور ہر خانے میں  کسی نہ کسی عالم کی زندگی کی یادداشت یا فلم موجود ہے۔ کسی وجہ سے جب یہ خانہ کھل جاتا ہے تو اس کے اندر کی فلم دماغ کے اسکرین پر منتقل ہونے لگتی ہے۔ دماغ کے یہ تمام خانے اور ان کے اندر کی یاد داشتیں ہمارے شعور کے مختلف مراحل ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک بچہ ماں کے پیٹ میں نو ماہ کے دوران مختلف مراحل سے گزر کر مکمل ہوتا ہے یا ایک بچہ دنیا میں پیدا ہوکر بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کے ادوار سے گزرتا ہے۔ اور جب یہ تمام مراحل اپنی تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر یہ شعور ایک نئے شعور میں داخل ہوجاتا ہے، نئے شعور کا غلبہ پرانے شعور پر اس طرح ہوجاتا ہے جیسے سورج نکلنے کے بعد رات کا اندھیرا غائب ہوجاتا ہے اور دن کو کبھی رات کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ 
اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ’’ہر شئے اﷲ کی جانب سے آتی ہے اور اﷲ کی جانب لوٹ جاتی ہے‘‘۔ یعنی ہر شئے کی تخلیق کی ابتداء اﷲ تعالیٰ سے ہے۔ اس دنیا میں جب ہمیں شعوری حواس اور آنکھ مل جاتی ہے تب ہم اس حقیقت کی کھوج میں سرگرداں ہوجاتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی ہستی سے نکل کر اس دنیا تک ہمارا سفر لاشعور ہے۔ جس میں ہمارے ارادے اور ذہنِوحواس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس تمام زندگی کو ہم ماں کے پیٹ کی زندگی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں کہ جس میں ماں ہی اپنے بچے کی تخلیق کرتی ہے۔ وہ چاہے تو اپنے پیٹ سے بچے کا وجود ختم بھی کرسکتی ہے۔ بچے کا اس میں اپنا کوئی ارادہ یا دخل نہیں ہے۔ اسی طرح اﷲ پاک کی جانب سے اس دنیا میں آنے تک ہمارے شعور وعقل کا کوئی دخل اس لاشعور کے سفرمیں نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح بھی اﷲ نے چاہا ہمیں اس دنیا تک پہنچا دیا۔ اب اس دنیا سے واپسی کا سفر ہم اپنے ہوش وحواس کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یعنی آنکھ کھول کر اسی رستے پر چل رہے ہیں جس راستے سے ہمیں اس دنیا میں لایا گیا تھا۔ یہ واپسی کا سفر انسانی ذہن کے ارتقاء کے مراحل ہیں۔ انفرادی شعور کی Growth کے چار مراحل ہیں۔ جنہیں ہمارے روحانی پیشوائوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ انسان چار عالمین کا مجموعہ ہے۔ جس طرح ظاہری طور پر ہمارا جسم اور جسمانی شعور چار مراحل سے گزر کر اپنے نئے سفر میں داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس ظاہری شعور کا دوہرا رُخ روحانی شعور بھی چار مراحل سے گزر کر اس مقام پر پہنچتا ہے۔ جس مقام پر اﷲ تعالیٰ نے کُن کہہ کر روحوں کو پید اکیا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں روحوں نے اﷲ پاک کو دیکھا اور اس کی خالقیت کا اقرار کیا۔ یہی وہ مقام ہے جس کے لئے اﷲ پاک نے فرمایا کہ ہر شئے اﷲ کی جانب سے آتی ہے اور اﷲ کی جانب ہی اُسے لوٹ کرجانا ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ نے آنکھ اس لئے عطا کی ہے کہ اس آنکھ سے اﷲ تعالیٰ کا دیدار کیا جائے۔
روحانی شعور کی تخلیق کے چار مراحل ہیں -1عالمِلاہوت۔ -2عالم جبروت۔ -3عالم ملکوت۔ -4عالم ناسوت  
روحانی شعور کی ابتداء اﷲ پاک کی جانب سے ہوئی۔ اﷲ پاک اپنی ذات وصفات میں سب سے زیادہ اعلیٰ وبزرگ ہے۔ اس اعتبار سے ہر شئے اعلیٰ درجہ سے تنزل کرکے نچلے درجے میں آتی ہے اور یہ دنیاوی شعور اس اعلیٰ شعور کا سب سے نچلا درجہ ہے۔ جسے اﷲ پاک نے اسفل کا نام دیا ہے۔ 
سورئہ التین میں اﷲپاک فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے پیدا کیا ہے انسان کو بہترین صناعی پر پھر اسے اسفل کی جانب لوٹا دیتے ہیں‘‘۔ 
اسفل روحانی شعور کا دوسرا رُخ ہے۔ جس میں روحانی شعور ایک ایسی حد میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں نظر نور کی بجائے مادّی روشنیاں دیکھتی ہے اور نور سے اس کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے شعور ہر شئے کو الگ الگ اور جدا جدا دیکھتا ہے۔ اس کی آنکھ نور کے اس غلاف سے ہٹ جاتی ہے جس غلاف نے کائنات کی ہر شئے کو اپنے اندر ڈھانپ رکھا ہے۔ ہر فرد دنیا میں اپنے ساتھ ساتھ ہر شئے کو جدا جدا جسم کے ساتھ دیکھتا ہے اور اس باہمی ربط سے منحرف ہوجاتا ہے۔ جس نے سب کو ایک دامن میں بھر رکھا ہے۔ اس نچلے ترین مقام سے اﷲ تعالیٰ واپس اپنے بندوں کو اپنی جانب لوٹنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ بھٹکی ہوئی نظر پھر اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
اﷲ تعالیٰ کا ہر کام مکمل ہے۔ اس نے اپنی ذات کو احسن الخالقین کہا ہے۔ عالم لاہوت روحانی شعور کا سب سے اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی تجلیٔ ذات کا عالم ہے۔ جہاں اﷲ تعالیٰ کی تجلیات میں کائنات ڈوبی ہوئی ہے۔ بشری شعور کو اﷲ پاک نے ایسی ہمت وقوت عطا کی ہے کہ بشری شعور کی رسائی اس اعلیٰ علیین کے مقام تک ہے۔ اﷲ تعالیٰ جسے اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم حضور پاکﷺ کی رحمت اور بشر کی اپنی شعوری سکت کے مطابق کوئی بندہ اپنے خالق کے نور کو دیکھ لیتا ہے۔ روحانی شعور کے اس ابتدائی مرحلے میں سوائے اﷲ کی تجلیات کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ  عالم ہے جس کے لئے اﷲ پاک نے فرمایا کہ کائنات پر ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ ناقابلِ تذکرہ تھی۔ یعنی اﷲ کے علم میں کائنات تھی مگر خود کائنات کے افراد کو اپنے وجود کا پتہ نہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ کی شان ذوالجلال ہے کہ اس نے اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کی رحمت سے بشری شعور کو تجلیٔ ذاتِ باری تعالیٰ سے روشناس کرایا اور معرفتِ ذاتِ باری تعالیٰ کے علوم سے سرفراز فرمایا۔ حضور پاکﷺ کی رحمت سے آپﷺ کے بعد آنے والوں پر معرفتِ ذات کا دروازہ کھل گیا اور افراد کائنات نے جان لیا کہ وجود میں آنے سے پہلے تمام کائنات اﷲ تعالیٰ کے علم کا ایک جز تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کائنات کا شعور اﷲ تعالیٰ کی تجلیات میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ایک وقت ایسا پھر آئے گا کہ کائنات دوبارہ ناقابلِ تذکرہ رہ جائے گی‘‘۔
روحانی شعور کا دوسرا مرحلہ عالم جبروت ہے۔ جو تجلٔی صفاتِ باری تعالیٰ ہے اور اسی کو عالم ارواح کہا گیا ہے۔ اس مرحلے میں روحوں کی تخلیق ہوئی اور روحوں نے اپنے خالق کو دیکھا اور اس کی خالقیت وربوبیت کا اعتراف کیا۔ خالق کو جاننے کے بعد انہیں خود اپنی ذات کی پہچان ہوئی کہ وہ خود سے وجود میں نہیں آئیں بلکہ ان کی خالق اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ واحد ہے۔ عالم امر کے یہ تمام علوم انسان کی روح میں محفوظ ہیں اور روحانی شعور کے تخلیقی مدارج کا یہ دوسرا درجہ ہے۔ 
روحانی شعور کا تخلیق کا تیسرا مرحلہ عالمِ ملکوت ہے۔ نور کے اس عالم میں ارواح اپنے علاوہ کائنات کی دوسری مخلوقات سے بھی متعارف ہوتی ہیں اور انہیں کائناتی شعور عطا ہوتا ہے۔ روحانی شعور کے چوتھے مرحلے میں روح عالمِ ناسوت میں اُتر آتی ہے۔ یہ وہ مادّی عالم ہے جہاں کی روشنیوں میںروحانی شعور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے بادل کی اوٹ میں چاند اپنا مکھڑا چھپا لیتا ہے۔ روح کی نظر اپنی ذات کی کھوج میں سیاہ بادلوں میں بھٹکتی پھرتی ہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کا فضلِوکرم رحمتِ خداوندی بن کر دنیا میں نزول کرتا ہے اور نوع انسانی کے لئے ہدایت کا راستہ متعین ہوجاتا ہے۔ تمام پیغمبران علیہم السلام اور تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے رشدو ہدایت کے اس پروگرام کا جز ہیں۔ قرآن کو مکمل کتاب اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر نوع انسانی کو عطا کئے گئے علم الاسماء مکمل اور جامع صورت میں موجود ہیں۔ یہ علم روحانی شعور کے چاروں مراحل کا احاطہ کرتا ہے اور روحانی شعور کو دنیاوی شعور سے درجہ بدرجہ بڑھاتا ہوا  اعلیٰ علیین کے اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جس مقام پر اﷲ کا بندہ اپنے خالق کا دیدار کرلیتا ہے اور اپنے ازلی اور طبعی شعور سے واقف ہوجاتا ہے۔ قربِ الٰہی کے اس درجے میں روحانی شعور اپنے خالق سے اس طرح ملاقات کرتا ہے جس کے لئے قرآن نے فرمایا ہے کہ نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ یعنی میں تم سے تمہاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اب اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رگ جان کیا ہے اور اپنے رب کی قربت کس حال میں ہے۔ مگر روحانی شعور کا اعلیٰ ترین درجہ اپنے خالق کی قربتوں سے مانوس ہے جہاں خالق نے اپنے محبوب سے راز ونیاز کئے۔
اﷲ پاک کی شان نرالی ہے۔ اس نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دریچے کھول رکھے ہیں۔ قرآن میں کئی جگہ اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے قرآن کا سمجھنا تم پر آسان کردیا ہے۔ ہے کوئی سمجھنے والا‘‘۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ قرآن کا مصنّف اﷲ پاک ہے۔ اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں مصنف کے ذہن کو سمجھنا پڑے گا کہ اس نے قرآن کو کس ضابطۂ فکر کے ساتھ لکھا ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کو ماننا پڑے گا کہ قرآن کی ہدایات صرف دنیا کی حدود تک ہی نہیں ہیں بلکہ یہ ان چاروں عالمین کا احاطہ کرتا ہے جس کے علوم آدم کو عطا کئے گئے ہیں۔ پوری کائنات اﷲ کا ایک ملک ہے۔ جس کی بادشاہی اور وزارت اﷲ کے مخصوص بندوں کو سونپی گئی ہے جو اس کے نائب اور خلیفہ ہیں۔ قرآن میں بیان کئے گئے نظامتِ کائنات کے تمام قوانین اور فطرت کے تمام اُصول پوری کائنات میں یکساں طور پر جاری وساری ہیں۔ قرآن میں جن قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ دراصل ملکِ کائنات کے مخصوص کردار ہیں۔ مثلاً مومنین، عیسائی، یہودی، مسلمان، بت پرست یہ تمام بشری کردار کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کی جامع تعریف قرآن میں وضاحت کے ساتھ کردی گئی ہے۔ ہر بشر اپنی ذات میں مومن بھی ہے، عیسائی بھی ہے، یہودی بھی ہے، مسلمان بھی ہے اور بت پرست بھی ہے اس لئے کہ آدم تمام بنی نوع انسانی کا نمائندہ ہے۔ تمام نسل انسانی ایک آدم وحوا سے وجود میں آئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا۔ یعنی تمام نوع انسانی کی تخلیق کا فارمولا ایک ہی ہے۔ قرآن میں آدم کے مختلف کرداروں کا تذکرہ کرکے اﷲ پاک ہمیں خود اپنی ذات سے متعارف کرنا چاہتے ہیں کہ تمہارے اندر یہ یہ کمزوریاں اور خرابیاں ہیں۔ انہیں اپنے اندر سے نکالو ورنہ یہ تمہیں نقصان پہنچائے گی اور دنیا میں بدامنی اور بے سکونی کا باعث بنے گی اور دنیا میں بسنے والے افراد کے لئے مصیبت وتکلیف پہنچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ کیونکہ دنیا میں انسان کی حیثیت خلیفہ کی ہے۔ اسے اﷲ تعالیٰ نے ایسی عقل اور قوت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے دنیا کی تمام مخلوقات پر غلبہ حاصل کرسکتا ہے۔ ایک آدمی جب چاہتا ہے اونچے سے اونچے پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے، جہاں کسی پرندے کا گزر نہیں ہوتا۔ ایک آدمی جب ارادہ کرتا ہے تو خطرناک سے خطرناک درندوں اور جانوروں کو زیر کرلیتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے زمین پر کھیتیاں اُگالیتا ہے۔ جب چاہتا ہے بسی بسائی زمین کو اُجاڑ دیتا ہے۔ یہ تمام جیتی جاگتی مثالیں ہماری آنکھوں کو اس لئے دکھائی گئی ہیں کہ نسل انسانی کا ہر فرد اپنے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں سے واقف ہو جائے اور ان کے نفع ونقصان کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے اندر کام کرنے والی روشنیوں کی مقداروں کو اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اُصولوں کے مطابق استعمال کرنا سیکھ لے کیونکہ آدمی کے اندر کام کرنے والی ہر صلاحیت اﷲ پاک کی صفات کا نور ہے۔ نور میں کوئی کثافت نہیں ہے۔ یہ مقدس وپاک ہے۔ مگر ان کا غلط استعمال آدمی کو نقصان پہنچاتا ہے مثلاً آگ کی فطرت جلانا ہے فطرت بدل نہیں سکتی، مگر آگ پر کھانا بھی پکایا جاتا ہے۔ آگ کھانے کو نہیں جلاتی کیونکہ کھانا پکانے والا آگ کی مقداروں کے صحیح تناسب کا استعمال کرتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔
اس دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے افرادِ کائنات کو اور خصوصی طور پر انسان کو انفرادی شعور اس لئے عطا کیا ہے تاکہ ہر فرد یہ جان لے کہ اس کے اندر کیا خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ آدم یا انسان اپنی ذات میں تمام افراد کائنات کا مجموعہ ہے۔ وہ درندگی میں شیر بھی ہے اور انکساری وعاجزی میں زمین بھی ہے۔ جو مٹی بن کر ہر وقت پائوں تلے بچھی رہتی ہے۔ وہ تکبر وحسد میں شیطان بھی ہے اور رحم دلی اور ایثار میں فرشتہ بھی ہے۔ اس کا مادّی جسم مٹی کا بت ہونے کے ساتھ ساتھ اسی جسم میں بسنے والی روح چاند، ستاروں اور سورج سے زیادہ روشن بھی ہے۔ اﷲ احسن الخالقین ہے۔ اس نے کائنات کے تمام افراد کی جملہ صفات ایک نقطے میں جمع کردیں اور اس نقطے کو آدم کا نام دے دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے انار، کہ ایک پھل مانا جاتا ہے مگر جب اس کو کھولیں تو یہ بے شمار دانوں کا مجموعہ ہے اور ہر دانہ الگ الگ غلاف میں محفوظ ہے۔ جس دانے کو انار سے الگ کرنا چاہیں، نکال لیں۔ اسی طرح قرآن میں انجیر کی مثال دی گئی ہے کہ انجیر اوپر سے ایک پھل ہے مگر اس پھل کے اندر بے شمار باریک باریک دانے ہیں۔ جو پھل کا جز ہیں۔ پھل کے کسی جز کو پھل سے علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں افراد کائنات کی صورت میں آدم کے اندر کی تمام صلاحیتوں کو الگ الگ نکال کے سامنے اس لئے کردیا ہے تاکہ آدم کو نیابتِوخلافت کی جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان ذمہِداریوں کو پہچان کر اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر اﷲ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق عمل کرے۔ آدم ازل میں اﷲتعالیٰ کی جانب سے جس کام کے لئے منتخب کرلیا گیا ہے اس کام کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلے۔ قرآن کی ہرآیت اور اس کے اندر کے تمام احکامات انسان کی اسی تیاری کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ اﷲ پاک کا کوئی کام ادھورا نہیں ہے۔ نیابت وخلافت کے دائرے میں کائنات کے پروجیکٹ میںہر شخص کا کوئی نہ کوئی رول ضرور ہے۔ کوئی انسان اس رول کو اﷲتعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے ذہن کی تمام صلاحیتوں اور دماغ کا بھرپور استعمال کرکے انجام دیتا ہے، تب وہ اﷲ سے راضی ہوجاتا ہے اور اﷲ بھی اس سے راضی ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس رول کو انجام دینے کے لئے اپنی صلاحیتوں اور دماغ کا بھرپور استعمال نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں نہ وہ خود اپنے عمل سے مطمئن ہوتا ہے اور نہ ہی اﷲ پاک اس سے راضی ہوتا ہے۔ اس کا مرنے کے بعد زندگی گزارنے والا جسم بیمار اور بے رنگ ونور ہوجاتا ہے۔ 
قرآن پڑھتے وقت اس نکتے کو ضرور مدّنظر رکھا جائے کہ قرآن کی تمام ہدایتیں اس کے پڑھنے والے کے لئے ہیں۔ اگر یہ قرآن میں پڑھ رہا ہوں تو یہ صرف میرے لئے نازل کیا گیا ہے۔ میرے اعمال کی سزا وجزا کا حساب کتاب صرف مجھ ہی سے لیا جائے گا۔ اس فکر کے ساتھ جو بھی عورت یا مرد قرآن پڑھتا ہے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتا ہے اس کے علوم حاصل کرنے کی جستجو میں دن رات کا چین بھول جاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اﷲ پاک نے فرمایا ہے کہ ’’ہم نے اس قرآن کا پڑھنا او ر سمجھنا تم پر آسان کردیا ہے، ہے کوئی سمجھنے والا‘‘۔
قرآن میں ایک ہی موضوع کو الگ الگ جگہوں پر بیان کیا گیا ہے اور بظاہر اس الگ الگ بیانات میں ایک دوسرے سے تضاد محسوس ہوتا ہے لیکن جب ایک فرد اس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ اﷲ کا کلام ہے اور اس کی آیتوں کے ذریعے اﷲپاک مجھ سے کلام کر رہے ہیں تو اس کی تمام تر توجہ اُس ذات واحد کی جانب ہوجاتی ہے جو اُس سے کلام کر رہا ہے۔ پس جب دل اور ذہن اﷲ کی جانب پورے کا پورا رجوع ہوگیا تو کلام کے لکھنے والے کے ساتھ اس کلام کے پڑھنے والے کی فریکوئنسی قائم ہوجاتی ہے یعنی اﷲ کے اس نور سے اس کا رابطہ قائم ہوجاتا ہے جس نور میں قرآن کے تمام علوم موجود ہیں اور اﷲ پاک اپنے بندے کو جس طرح قرآن سکھانا چاہتے ہیں، سکھاتے ہیں۔تمام پیغمبروں کا یہی طریق رہا ہے کہ سب سے پہلے اُنہوں نے اپنے رب کو جاننے کی جستجو کی۔ پھر جب اﷲ پاک سے ان کے شعور کا رابطہ قائم ہوگیا تب اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو کچھ سکھانا چاہا سکھادیا۔ یہی وحی کی طرزیں ہیں۔ ایک ہی موضوع پر اﷲ پاک کے دو الگ الگ احکامات نازل ہوئے ہیں۔ ان کی وضاحت بھی ضروری ہے تاکہ ان کے پس پردہ اﷲ تعالیٰ کی حکمتیں سامنے آجائیں اور کچے ذہن کنفیوز نہ ہوں۔
ترجمہ: ’’بے شک مومنین ہوں یا یہودی۔ عیسائی ہوں یا صابی۔ جو کوئی بھی ایمان لائے اﷲ پر۔ اور روزِقیامت پر اور نیک عمل کرے۔ تو ان کے لئے ان کا اجر ہے اﷲ کے ہاں۔ اور نہیں کوئی اندیشہ ان کے لئے۔ اور نہ وہ غمگین ہونگے‘‘۔ (سورئہ بقرہ۔ آیت62)
ترجمہ: ’’ہاں جس نے بھی جھکا دیا اپنے آپ کو اﷲ کے لئے۔ اور وہ مخلص بھی ہو۔ تو اس کے لئے اس کا اجر ہے۔ اپنے رب کے پاس۔ نہ کوئی خوف ہے انہیں۔ اور نہ ہی وہ غمگین ہونگے‘‘۔ (سورئہ بقرہ۔ آیت112)
ترجمہ: ’’بے شک جو لوگ ایمان لائے۔ اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصرانی۔ جو بھی ایمان لایا اﷲ پر۔ اور روز قیامت پر۔ اور نیک عمل کئے۔ تو نہ کوئی خوف ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہونگے‘‘۔ (سورئہ مائدہ ۔ آیت69) 
مندرجہ بالا آیات میں نہایت ہی صاف طور پر وضاحت کردی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے یہاں نجات اور خوشیوں کی ضمانت کس کے لئے ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت 112 میں بالکل صاف لکھا ہے کہ نسل انسانی کا کوئی بھی فرد خواہ وہ کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر وہ ایک خالق کو مانتا ہو اور توحید پر قائم ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے اندر اﷲ کی مخلوق کے لئے اخلاص ہو۔ تو ایسا فرد یا ایسی قوم اﷲ تعالیٰ کی پسندیدہ ہے۔ باقی دوسری آیتوں میں دنیا میں رائج مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے نام کے ساتھ بھی اﷲ پاک نے یہی بات کی ہے کہ اﷲ پاک اپنے بندوں سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس حقیقت پر یقین کرلیں کہ ساری کائنات کا خالق اﷲ رب العالمین ہے۔ جب کوئی بندہ یا کوئی قوم اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیتی ہے تو اس کا رابطہ اﷲ پاک کے اس نور سے قائم ہوجاتا ہے جو ساری کائنات کو فیڈ کر رہا ہے اور اُجالے کی طرح ہر شئے کے چاروں طرف لپٹا ہوا ہے۔ اﷲ پاک کے یہاں نجات اور خوشیوں کی ضمانت کی شرط ایک اﷲ کو اپنا خالق مانناہے۔ اس میں اﷲ تعالیٰ کا اپنا ذاتی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اﷲ تو بے نیاز ہے۔ وہ جیسا ہے ویسا ہی ہے، نہ اس کے اندر کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ اس کی ذات وصفات میں ازل سے ابد تک کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ مگر چونکہ یہ کائنات اﷲ نے تخلیق کی ہے اور اس کے اندر حرکت قائم کردی ہے حرکت کے لئے انرجی کی ضرورت ہے اور یہ انرجی اﷲ پاک کے نور سے کائنات کو موصول ہو رہی ہے۔ ذرا سوچو کھانے کی پلیٹ سامنے رکھ کر کہہ دو کہ میں نے کھانا کھالیا اور پیٹ بھر گیا تو ایسا نہیں ہوگا۔ اس کھانے کو پیٹ میں ڈالنے سے ہی بھوک مٹے گی اور قوت ملے گی۔ اﷲ پاک کے نور نے ہر شئے کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ضرور ہے۔ مگر عقل وشعور آدمی کو اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ اس نور کو اپنے سینوں میں اُتار لیں تاکہ یہ نور اس کے حواس بن جائے اور اس کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہوجائیں۔ روح کے تمام حواس اﷲ تعالیٰ کے نور پر قائم ہیں۔
سورئہ آل عمران کی 28 ویں آیت میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’نہ بنائیں مومن کافروں کو اپنا دوست مومنوں کو چھوڑ کر۔ اور جس نے کیا یہ کام۔ پس نہ رہا اﷲ سے کوئی تعلق۔ مگر اس حالت میں کہ تم کرنا چاہو ان سے اپنا بچائو‘‘۔
اﷲ کے نزدیک کافر وہ ہے جو وحدانیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب وہ خالق کو نہیں مانتا تو اپنی زندگی کی ہر قوت کو وہ خود اپنی ذاتِ نفس سے وابستہ کردیتا ہے کہ جو کچھ اعمال مجھ سے سرزد ہورہے ہیں وہ بس میری ہی ذات سے ہو رہے ہیں۔ ان کی تمام قوت صرف میرے اپنے اندر ہی کی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے سڑک پر چلنے والی موٹر کار یہ کہے کہ چلنے کی قوت تو میرے اپنے اندر ہی ہے۔ مگر جب پیٹرول ختم ہوجائے تو پھر موٹر کار سے کہو کہ وہ چل کر دکھائے۔ وہ ایک انچ بھی سرک نہیں سکے گی اور پھر موٹرکار میں یہ صلاحیت کہاں کہ وہ اپنے اندر پیٹرول خود بھرے۔ پیٹرول بھی تو کار کا مالک ہی اس کے اندر بھرتا ہے۔ یہی مثال ساری مخلوق کی ہے ۔ مخلوق اپنی حیات کے لئے خالق کی محتاج ہے یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک اﷲ کو ماننے والے کو ایسے لوگوں سے دوستی کرنے کے لئے منع کیا ہے جو اﷲ کو اپنا خالق نہیں مانتے کیونکہ صحبت کا اثر آدمی کی طرزِ فکر بدل دیتا ہے۔
سورئہ آل عمران کی آیت 114-113 میں اﷲپاک فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’سب یکساں نہیں: اہل کتاب سے ایک گروہ حق پر قائم ہے۔ یہ تلاوت کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی آیتوں کی رات کے اوقات میں اور وہ سجدے کرتے ہیں۔ ایمان رکھتے ہیں اﷲ پر۔ اور روزِ آخرت پر۔ اور حکم دیتے ہیں بھلائی کا اور منع کرتے ہیں برائی سے۔ اور جلدی کرتے ہیں نیکیوں میں۔ اور یہ لوگ نیکو کاروں میں سے ہیں‘‘۔
ان آیات میں یہ بتایا جارہا ہے کہ رہتی دنیا تک ایک گروہ اہل کتاب میں سے حق پر قائم رہے گا تاکہ نسلِانسانی حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ  ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اورحضرت محمد مصطفیﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات سے بھی واقف رہیں اور فائدہ اُٹھاتے رہیں اور جان لیں کہ تمام پیغمبر ایک خالق کی جانب سے رشدو ہدایت کا پروگرام لے کر آئے ہیں اور سب کے بنیادی پیغام ایک ہی ہیں۔
سورئہ مائدہ کی 47 آیت میں درج ہے۔
ترجمہ: ’’اور ضرور فیصلہ کیا کریں انجیل والے اس کے مطابق۔ جو نازل فرمایا اﷲ تعالیٰ نے اس میں۔ اور جو فیصلہ نہ کریں اس کے مطابق جسے اﷲ تعالیٰ نے اُتارا ہے تو وہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
سورئہ الحج کی آیت 67 میں فرماتے ہیں
ترجمہ: ’’ہر اُمت کے لئے ہم نے مقرر کردیا ہے عبادت کا طریقہ۔ جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ تو انہیں چاہئے کہ وہ نہ جھگڑا کریں آپ سے اس معاملے میں‘‘۔
ان آیات میں بھی واضح طور پر تمام پیغمبران علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعت وعلوم کا تحفظ کیا جارہا ہے تاکہ رہتی دنیا تک تمام نسلِ انسانی پیغمبروں کو اﷲ تعالیٰ کا پیغام رساں جان کر ان کے لائے ہوئے احکامات میں کسی قسم کا شک شبہ اور ردو بدل نہ کرے۔ سب کا مقصد نوع انسانی کو اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت سے متعارف کرنا ہے کہ ایک ہی ذاتِ خالق تمام کائنات کی مالک اور پالنے والی ہے۔ اس سے رابطہ قائم رکھنے میں جسم، دماغ اور روح کے اندر اﷲ کے نور کا بہائو مسلسل جاری وساری رہتا ہے اور دنیا وآخرت دونوں میں اﷲ پاک کی جانب سے سکون چین اور آرام نصیب ہوجاتا ہے۔
قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نافرمان بندوں کی طرزِ فکر کی نشاندہی فرمائی ہے۔ نافرمانی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم دینے والے کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔ جب تسلیم ہی نہیں کرتے تو اس کے احکامات پر عمل کیسے کرسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قومِ بنی اسرائیل پر ہفتے کا دن عبادت کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ اس دن انہیں شکار ، کھیتی باڑی اور روزی کمانے کے تمام دھندوں کی سختی سے ممانعت تھی۔ اسے سبت کا دن اور اس قانون کو سبت کا قانون کہا گیا ہے۔ مگر اس قوم کے کچھ لوگ نافرمانی پر اُتر آئے اور اﷲ کے بنائے ہوئے قانون کو توڑ دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ بندر بنا دئیے گئے۔ اس واقعہ کو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ: ’’اور تم خوب جانتے ہو انہیں جنہوں نے نافرمانی کی تھی تم میں سے سبت کے قانون کی۔ تو ہم نے حکم دیا کہ بن جائو بندر پھٹکارے ہوئے۔ پس ہم نے بنادیا اس سزا کو عبرت۔ ان کے لئے جو اس زمانے میں موجود تھے اور جو بعد میں آنے والے تھے۔ اور نصیحت بنادیا پرہیز گاروں کے لئے‘‘۔ (سورئہ بقرہ۔ 65)
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کو مقداروں میں بنایا ہے۔ رنگِوروشنی کی مختلف مقداریں ہر مخلوق کے مختلف حواس بناتی ہیں۔ کتا انسان سے زیادہ سونگھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چیتا آدمی سے تیز دوڑتا ہے۔ پرندہ بغیر کسی کاوش کے اُڑجاتا ہے۔ غرضیکہ ہر نوع کے حواس کے دائروں میں روشنیوں کی مختلف مقداریں ہونے کی وجہ سے سب کے ذہن مختلف ہیں اور ان کی حسّیات بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ مقداروں کا یہ اختلاف حواس کے ساتھ ساتھ ظاہری ہیّت کو بھی تبدیل کردیتا ہے۔ جیسے کیمسٹری کے فارمولے الگ الگ ہیں۔ خاص تناسب کے ساتھ ملائی جانے والی گیسوں سے ایک تیسری چیز تیار ہوجاتی ہے۔ مگر جب ان کی مقداروں میں ردّوبدل کردیا جاتا ہے تو مطلوبہ چیز کی جگہ کوئی اور شئے بن جاتی ہے۔ مقداروں کے مختلف تناسب Combinations نے کائنات میں رنگا رنگی Variety پیدا کردی ہے اوردنیا میں بے شمار مخلوقات دکھائی دیتی ہیں۔ انسان کو ان تمام مقداروں کے علوم عطا کئے گئے ہیں۔ آدم اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے اپنی ذات میں تمام مخلوقات کا مجموعہ ہے۔ سبت کے واقعہ میں یہ بات بتائی جارہی ہے کہ آدمی جب اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے اندر انسانی حواس کی مقداریں بدل جاتی ہیں۔ انسانی حواس تمام مخلوقات سے زیادہ اعلیٰ ترین حواس ہیں۔ مقداریں بدلنے سے یہ حواس انسان کی بجائے نچلے درجے میں گرجاتے ہیں۔ جیسا کہ سبت کی نافرمانی نے انسان کو بندر کے اسفل درجے میں پہنچا دیا۔ آدمی کا دماغ بندر کا دماغ بن گیا او ر وہ انسان کی بجائے بندروں جیسی حرکت کرنے لگا۔
اﷲ تعالیٰ مندرجہ بالا آیت میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ سزا  اُس زمانے میں موجود لوگوں کے لئے بھی عبرت کا باعث تھی اور آنے والے ہر زمانے میں اسے عبرت کا باعث جاننا چاہئے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ پاک یہ فرما رہے ہیں کہ نافرمانی کا قوام نسل انسانی کے ہر فرد میں موجود ہے۔ کوئی نافرمانی کرکے نقصان اُٹھاتا ہے اور کوئی دوسرے کے تجربے سے نصیحت حاصل کرکے نافرمانی کرنے سے پرہیز کرتا ہے۔ اس دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے ہر امر کو فرداً فرداً عملی صورت میں ظاہر کردیا گیا ہے تاکہ شعوری حواس جو ظاہری شکل وصورت کے ذریعے باطن کو پہنچانتے ہیں۔ روشنیوں کے ان تناسب اور مقداروں سے واقف ہوجائیں جو نوع انسانی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچاتی ہیں۔ جیسے زہر کھانے سے موت واقعی ہوجاتی ہے اس لئے آدمی زہر کھانے سے پرہیز کرتا ہے۔ آدم کے کردار کی جتنی بھی کمزوریاں اور خرابیاں اﷲ تعالیٰ نے بیان کی ہیں۔ وہ انسان کے لئے زہرہلاہل ہیں۔ مسلسل بداعمالی آدمی کے جسم ، دماغ اور روح تینوں کو زہریلا کردیتی ہے اور روح کا شعور اس قدر کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ انسانی شعور سے اپنا رابطہ توڑ دیتا ہے اور انسان اسفل کے درجے میں ذلّت ورسوائی کی زندگی اختیارکرلیتا ہے۔ جس میں ڈرخوف اور رنج وغم کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی بھی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ سبت کے واقعہ میں اسی قانون کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے کہ نوع انسانی اس بات کو اچھی طرح اپنے دل ودماغ میں نقش کرلے کہ نافرمانی کا قوام صرف یہودی یابنی اسرائیل کے بعض لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہرگز بھی نہیں۔ یہ اﷲ کا کلام ہے اور اﷲ کا کلام صرف اسی دنیا تک کے لئے نہیں ہے۔ اس کے اندر فطرت کے وہ قوانین اور اصول بیان کئے گئے ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کا نظام جاری وساری ہے۔ نافرمانی کی وجہ سے آدم وحوا جنت سے نکالے گئے، خواہ وہ ان سے دانستہ ہوئی یا نادانستہ۔ جان کر زہر پینے سے بھی آدمی مرتا ہے اور بھول سے پینے سے بھی مرتا ہے۔ زہر کا کام تو مارنا ہے۔ آگ جان کر گھر کو لگانے سے بھی گھر جلتا ہے اور غلطی سے لگنے سے بھی گھر جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے۔
اے بنی نوع انسان! تو کس بھول میں پڑا ہے!۔۔۔۔۔

میرے دوستو! ساتھیو! بیٹو! بزرگو! بچو! بچیوں! بہنوں! بھائیوں! یہ قرآن صرف تمہارے لئے نازل ہوا ہے۔ تم ہی فرد ہو۔ تم ہی شعور ہو۔ تم ہی آنکھ ہو۔ تم ہی کان ہو۔ تمہارا محدود ترین گھر قبر ہے۔ اﷲ کے تصور سے اپنے گھر کو وسعت دو۔ قرآن کے نور سے اُسے روشن کردو۔ ورنہ ظالم اور جاہل کی مہر تمہارے مقدر پر ثبت کردی جائے گی۔ آخر تم سب کس بھول میں پڑے ہوئے ہو؟؟؟۔۔۔۔۔

[ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ: مئی 2003ء]

محمد ذیشان خان

imzeeshankhan@gmail.com http://www.facebook.com/imzeeshankhan

1 Comments

Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form