سعیدہ خاتون کا دورۂ امریکہ

روحانی مشن کی ترویج واشاعت کے سلسلہ میں سعیدہ خاتون سال 199ء میں  امریکہ وکینیڈا کے دورے پر تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے متعدد روحانی محافل میں شرکت کی ۔ ٹیلی وژن اور اخبارات کو انٹرویوز دیئے ۔ یہاں اس دورے کی روداد قارئین کرام کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے ۔ 


=================================
لندن سے برٹش ائیرویز کی پرواز سے میں اور سعیدہ خاتون بوسٹن امریکہ پہنچے۔ مراقبہ ہال ولبراہم میسا چوسٹ کے نگران ڈاکٹر فیاض حکیم اپنی اہلیہ شاہین اختر اور تینوں بچوں کے ساتھ ائیر پورٹ پر موجود تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق گجرات انڈیا سے ہے۔ یہاں سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کے فروغ میں ڈاکٹر فیاض حکیم اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ قدم بقدم ساتھ ساتھ ہیں۔ نصف گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اپنے میزبانوں کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ۔ 

سعیدہ خاتون کے امریکہ کے دورے کا پہلا پروگرام دوسرے دن ونگ میموریل ہسپتال پالمر میں تھا ۔ اس کے لئے ڈاکٹر فیاض حکیم نے پہلے ہی سے اشتہار تیار کرکے جگہ جگہ تقسیم کردیئے تھے ۔ پروگرام کے آغاز میں ڈاکٹر فیاض حکیم نے سلسلہ عظیمیہ اور مہمان اسپیکر کا تعارف کرایا ۔ حاضرین میں امریکن ڈاکٹر ، نرسیں یاو ہ لوگ شامل تھے جن کا تعلق اس ہسپتال سے تھا۔ 
سعیدہ خاتون نے ’’ انسان ایک کائنات ہے ‘‘ کے موضوع پر اپنی تقریر کا آغاز کیا جو آدھے گھنٹہ تک جاری رہا۔ تقریر کے بعد آدھے گھنٹے کا سوال و جواب کا سیشن تھا ۔ آخر میں مراقبہ کرایا گیا ۔ میں نے حاضرین کو پہلے مراقبہ کا طریقہ کار سمجھایا پھر سانس کی مشقیں کرائی گئیں۔ یاحی یاقیوم کا ورد کیا جو سب نے مل کر پڑھا۔ ہال یاحی یاقیوم کے ورد سے گونج رہا تھا سب چونکہ ایک ساتھ مل کر پڑھ رہے تھے لہٰذا بہت ہی بھلا لگ رہا تھا بلکہ سب روحانی سرور میں تھے ۔ سعیدہ خاتون کے زیرِ سرپرستی 20 منٹ کا مراقبہ ہوا ۔ مراقبہ ختم کرنے کے بعد فرداً فرداً تمام خواتین سے سعیدہ خاتون نے ملاقات کی۔ آخر میں ڈاکٹر فیاض حکیم نے سب کا شکریہ ادا کیا اور ولبراہم کی مراقبہ کلاسز کے اوقات و جگہ سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ 
ولبراہم میں دوسری محفل بروز ہفتہ 10جولائی کو HOWARD JHONSON کانفرس سینٹر سبرنگ فیلڈ میں تھی۔ یہ پروگرام ایشین لوگوں کے لئے تھا۔ اس پروگرام میں شرکت کے لئے محترم طارق جمیل اپنی فیملی کے ساتھ بوسٹن سے تشریف لائے۔ طارق جمیل پہلے نیویارک میں مقیم تھے حال ہی میں بوسٹن منتقل ہوئے ہیں۔ 
وقت مقررہ پر محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت مجھے حاصل ہوئی اس وقت پورے ہال میں سکوت تھا۔ خواتین و حضرات سر جھکائے آنکھیں بند کئے پوری توجہ کے ساتھ تلاوت قرآن سن رہے تھے۔ قرأت کے بعد ڈاکٹر فیاض حکیم نے سلسلہ عظیمیہ کا تعارف اور اس کی تعلیمات پر تقریر کی اور امریکہ میں دوسرے مراقبہ ہالز کا تعارف کرایا جو خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت کام کررہے ہیں ۔ آخر میں ولبراہم میں اردو اور انگریزی کی جو محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اس کی تفصیلات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ 
اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد سعیدہ خاتون کو دعوت دی گئی کہ وہ اسٹیج پر تشریف لاکر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔سعیدہ خاتون نے اپنی تقریر کا آغاز سورہ بقرہ کی اس آیت سے کیا۔
علم آدم الاسمآء کلھا
آپ نے کلامِ الہٰیہ اور طرزِ روحانی کے بارے میںتفصیلاً بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’ اﷲ تعالیٰ کی وحی ہے جو پیغمبرِ اسلام سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی۔ وحی اﷲ تعالیٰ کے احکامات کے انوارات کا براہِ راست شعور پر نازل ہونے کا نام ہے ۔ شعور یا انسانی عقل ایک ایسی مشین ہے جو اپنے اندر داخل ہونے والی روشنیوں کو الفاظ و معنی میں ڈھال دیتی ہے ۔ وحی امرِ الہٰیہ کے انوار و تجلیات کو براہِ راست الفاظ و معنی میں ڈھالنے کا نام ہے ۔ طرزِ وحی کے ذریعے معنی پہنانے میں انسان کے شعوری ذہن اور ارادے کا دخل نہیں ہوتا بلکہ امرِ ربی یا روح پر نازل ہونے والے احکاماتِ الہٰیہ روح کے ارادے سے شعور کی مشین سے گزر کر الفاظ و معنی کا روپ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ کیونکہ غلطیاں انفرادی عقل کے دائرے ہی میں ہوتی ہیں۔ امر ربی یا روح اﷲ تعالیٰ کے ارادے و حکم کی پابند ہے ۔ وحی کا کلام روحانی شعور و عقل کا اظہارِ معنی ہے ۔ یعنی روح پر نازل ہونے والے احکاماتِ الہٰیہ کو پیغمبروں کے روحانی شعور نے جو الفاظ و معنی پہنائے ان الفاظ و معنی کی دستاویز وحی کا کلام ہے ۔ روحانی شعور لامحدودیت میں امورِ الہٰیہ کو جاننے اور پہچاننے والی عقل ہے۔ وحی کے کلام کو ہر دور میں نوعِ انسانی کے شعوری سطح کے مطابق معنی پہنائے جاتے ہیں۔ انفرادی شعور  روحانی شعور کا  ایک جُز ہے ۔ شعوری نظر دنیا میں دیکھتی ہے اور دنیا محدود ہے جبکہ روحانی نظر غیب میں دیکھتی ہے اور غیب لامحدود ہے پس محدود نگاہ لامحدودیت میں دیکھنے والی نگاہ کا ایک زاویہ ہے ۔ جو صرف اپنی حّدِ نگاہ میں دیکھتا ہے ۔ باقی سب کچھ اس کی نظر سے غیب ہی رہتا ہے ۔ چودہ سو سال سے کلامِ الہٰی کی جو بھی تشریحات ہورہی ہیں ان میں الفاظ و معنی کی تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ تشریح کرنے والا اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھنے والی روشنی کومعنی پہناتا ہے ۔ الہامی کلام کی اگر ہزار بندے بھی تشریح کریں گے تو ہر ایک کی تشریح میں فرق ہو گا کیونکہ ہر ذہن روح کے ذہن کا ایک جُز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ الہٰی کے معنی و تشریح کے اختلاف نے فرقوں کو جنم دیا۔ فرقہ بندی اس لئے ہے کہ یونٹ یا ایک جُز کو کُل سمجھ لیا گیا ۔ یعنی بیان کرنے والے کے ایک زاویہ فکر کو کل روحانی فکر پر محمول کیا گیا کہ بیان کرنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہی مکمل تشریح ہے ۔جُز کُل نہیں ہوسکتا بلکہ بہت سے اجزاء کو اکٹھا کرکے کل صورت بنتی ہے ۔ بکھری ہوئی کڑیاں زنجیر نہیں کہلاتیں ۔بلکہ کڑیوں کو جوڑ کر زنجیر بنتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے شعورکی کمزوریوںکو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ اصول بنایا ہے کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ تفرقہ بندی نہ کرو تاکہ محدود زاویہ نگاہ سے نکل کر روح کی نظر سے کائنات کو دیکھ سکو ۔ علم الاسماء اﷲ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن کے انوارات و تجلیات آدم کی روح کی صلاحیتیں ہیں۔ آدم کو اپنے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کے علوم عطا کئے گئے ہیں۔ اگر ہم نے اس دنیا میںاپنی صلاحیتوں کو بیدار نہ کیا تو  گویا  عمرِعزیز کو ضائع کردیا‘‘۔ 
تقریر کا یہ سلسلہ دوگھنٹے تک جاری رہا۔ تقریر کے بعد محفل مراقبہ منعقد کی گئی ۔ دعا کے بعد لنگر تقسیم ہوا  اور یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔ 
اتوار 11 جولائی کو ڈاکٹر فیاض حکیم کی فیملی کے ساتھ ہم طارق جمیل کی دعوت پر بوسٹن گئے۔ بوسٹن بالکل انگریزی طرز کا بنا ہوا شہر ہے ۔ یہاں کی ہارورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ۔ امریکہ کے 35 ویں صدر جان ۔ ایف ۔ کینڈی اسی یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ یہاں ان کے نام پر لائبریری اور میوزیم بھی قائم ہے ۔ اس میوزیم اور لائبریری میں بچوں کا داخلہ مفت ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال 25000 بچے اس لائبریری میں آتے ہیں۔ 
ہم ایک ہفتہ اپنی  بیٹی کے پاس نیوجرسی میں رکنے کے بعد ناصر الدین کے ہمراہ مراقبہ ہال نیویارک پہنچے ۔ یہ لونگ آئی لینڈ میں ہے اس کی نگران محترمہ زاہدہ رفیق ہیں ۔ نیویارک منتقل ہونے سے پہلے زاہدہ رفیق سیالکوٹ پاکستان میںمقیم تھیں ۔ ان کے گھر کا ہر فرد خاص طورپر ان کے شوہر محمد رفیق صاحب خدمت خلق کے جذبے کے تحت سرگرم عمل ہیں ۔ 
اگلے روز زاہدہ رفیق نے نیویارک میں پروگرام کی تفصیل سے آگاہ کیا ۔ نیویارک میں ہمارا قیام ایک ہفتے کا تھا اور دس پروگراموں کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ اس میںایک T.Vپر اور دو اخباروں میں انٹرویو تھے اور باقی 7محفل مراقبہ یا تقاریر تھیں ۔ 
نیویارک امریکہ کا سب سے مشہور تاریخی شہر ہے ۔ مین ہٹن کا علاقہ کاروباری اور اونچی اونچی بلڈنگ کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک ڈچ سیاح نے مین ہٹن ۱۶۲۶؁ء میں امریکن ریڈانڈین سے 24ڈالرمیں خریدا  اور تعمیرات کا کام شروع کیا ۔ بیٹری پارک کے علاقے میں ایک قلعہ تعمیر کیا جو ۱۸۱۱؁ ء میں بن کر تیار ہوا جو آج کیسل کلنٹن کے نام سے مشہور ہے اس میں میوزیم بھی ہے ۔ اس کے پاس ہی سے STATUE OF LIBERTYاور ایلس آئی لینڈ کو کشتیاں جاتی ہیں ۔ فرانس کی حکومت نے ۱۸۸۶؁ء میں STATUE OF LIBERTYتحفے کے طورپر امریکہ کو دیا تھا ۔ ایلس آئی لینڈ میں ایک میوزیم ہے ۔ 
شام 7بجے لائبریری کا افتتاح تھا ۔ یہ لائبریری بروکلن میں قائم کی گئی ہے ۔ اس علاقے میں ایشین کثیر  تعداد میں آباد ہیں ۔ اسے LITTLE ASIAبھی کہتے ہیں 
ہم زاہدہ رفیق اور چند دوستوں کے ہمراہ وقت مقررہ پر بروکلن پہنچے ۔ میاں عبدالرزاق یہاں لائبریرین ہیں ۔ لائبریری کی افتتاحی تقریر میں سعیدہ خاتون نے فرمایا کہ ’’دین وحدت فکر کا نام ہے ۔ وحدت فکر اللہ تعالیٰ کی تجلی ہے ۔ اس تجلی میں کائنات کا ذرہ ذرہ علم کائنات کی صورت میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی فکر تمام اجزائے کائنات کو شعور وعقل عطا کرتی ہے ایسی عقل جس عقل کے ساتھ ہر شئے اپنے خالق کو بھی پہچانتی ہے اور خالق کے ساتھ ساتھ خود اپنے آپ کو اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء کو بھی پہچانتی ہے ۔ عقل کی یہ پہچان وحدت فکر کی عطا کردہ ہے ۔ اجزائے کائنات کو خالق کی عطاکردہ پہچان وہ فطرت ہے جس پر اس شئے کی تخلیق کی گئی ہے ۔ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے ۔ دین فطرت لامحدودیت کے علوم ہیں جن کو سمجھنے کے لئے عقل کو وحدت فکر کی روشنی میں سفر کرنا ہوگا ‘‘ ۔ 
آخر میں سعیدہ خاتون عظیمی نے اپنی کتاب ’’ اندر کا مسافر ‘‘ اور مختلف کتابچوں کا ایک سیٹ لائبریری کے لئے دیا جسے میاں عبدالرزاق نے شکریئے کے ساتھ قبول کیا ۔ اس کے بعد ہم غلام مصطفی اور رضیہ کے گھر گئے جو چند قدم کے فاصلے پر تھا ۔ وہاں سے فارغ ہوکر جب ہم گھر پہنچے تو کافی رات ہوچکی تھی ۔ 
دوسرے دن جمعرات 22جولائی کو شام 6بجے طلعت ثناء اللہ کے گھر محفل مراقبہ تھی ۔ لونگ آئی لینڈ سے تقریباً 2گھنٹے کی ڈرائیو تھی ۔ شام کے وقت اکثر روڈ پر ٹریفک زیادہ ہوتی ہے اس لئے جلدی گھر سے نکلے ۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات اور لونگ آئی لینڈ میں قائم مراقبہ ہال کا تعارف کرایا ۔ روحانی علوم اور روحانیت پر سعیدہ خاتون نے خطاب کیا ۔ حاضرین میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی ۔ محفل مراقبہ کے بعددعا ہوئی ۔ وہاںسے واپسی پر ہم محترم امجد مغل کی رہائش گاہ پر گئے اور جب ہم لونگ آئی لینڈ پہنچے تو رات کے ڈیڑھ بجے تھے ۔ 
شام کو 7بجے کوئنز میں محفل مراقبہ تھی ۔ اس محفل کا اہتمام جمیل احمد نے کیا تھا ۔ محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ۔ زاہدہ رفیق نے مہمان اسپیکر کا تعارف کرایا اور سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا ذکر کیا ۔ سعیدہ خاتون نے محفل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نے اپنی امانت آسمان ، زمین اور پہاڑوں پرپیش کی ۔ سب نے کہا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہیں مگر اس امانت کو انسان نے اٹھالیا ۔ اور وہ ظالم اور جاہل ہے ‘‘ ۔
جاننا چاہئے کہ وہ امانت کیا ہے جس کا متحمل صرف انسان ہے ۔ باقی مخلوق اس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ۔ قرآن کے حوالے سے یہ امانت علم الاسماء ہے جو آدم کو خالق کی جانب سے منتقل کیا گیا ہے۔ اسی کی بناء پر آدم کو دوسری مخلوق کے مقابلے میںفضیلت حاصل ہے ۔ امانت اپنی ذاتی چیز کو کچھ  مدت تک کے لئے دوسرے کی حفاظت ہی میں رکھنے کا نام ہے ۔ امانت کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ امانت کسی ایسی ہستی کے پاس رکھی  جاتی ہے جو امانت کی پوری طرح حفاظت کرسکے ۔ چونکہ امانت کا مالک اللہ ہے لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی علوم ہیں جن کا حقیقی مالک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔ مالک اپنی امانت صرف اسی کے سپرد کرتا ہے جس پر اسے مکمل اعتماد ہوتا ہے کہ یہ اس کی امانت کا امین ہوگا ۔ اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے امانت سپرد کرنے سے پہلے امانتدار کی ذمہ داری اور حفاظتی صلاحیتوں کو اچھی طرح پرکھ لیا تب امانت اس کے سپرد کی ۔ سپرد کرتے وقت معاہدہ بھی کیا جاتا ہے تاکہ مالک کو اس کی امانت واپس مل سکے اور امانتدار اس امانت پرقبضہ نہ کرکے بیٹھ جائے ۔ امانت کے ان اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب اس امانت پر توجہ دیجئے کہ جو امانت اللہ کی جانب سے بندے کو عطا کی گئی ہے ۔ امانت علم الاسماء ہے ۔ علم الاسماء اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے علوم ہیں ۔ اللہ نے یہ امانت آدم کو عطا کی یعنی آدم اللہ کی امانت کا امین ہے ۔ امین آدم کا روحانی شعور ہے جس کے اندر اللہ کی امانت محفوظ ہے ۔ امانت کے معاہدے میں آدم سے یہ عہد لیا جاچکا ہے کہ وہ اپنی روحانی  صلاحیتوں اور عقل کو استعمال کرے گا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ آدم نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں اور جنات کے سامنے اپنے علوم کا مظاہرہ کیا ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک شخص کے پاس دوسرا شخص ایک قیمتی ہیرا  امانتاً رکھواتا ہے اور دوسرا شحص وہ ہیرا  اپنے دوست کو دکھاتا ہے کہ دوست اس انمول ہیرے کو دیکھے اور لطف اندوزہو مگر وہ ہیرا دوست کو دیتا نہیں بلکہ اسے بتادیتا ہے کہ یہ کسی کی امانت ہے ۔ تم اسے صرف دیکھ سکتے ہو ، دیکھنے کی اجازت مالک نے دی ہے ۔ دے اس لئے نہیں سکتا کہ مالک نہ جانے کب یہ ہیرا واپس لینے آجائے ۔ امانت دار وہ ہے جو امانت کی پوری طرح حفاظت کرتا ہے اور کسی وقت اس کی ذمہ داریوں کو نہیں بھولتا ۔ اللہ نے ظالم اور جاہل کہہ کر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بندے کی ایک لمحے کی بھول اس کے نزدیک قابل قبول نہیںہے ۔ آدم یعنی تمام نسل آدم اللہ تعالیٰ کی امانت علم الاسماء کی امین ہے اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب یہ امانت اس کے اصل مالک کو لوٹائی جائے گی ۔ پس وہ تمام معاہدے جن معاہدوں کے ساتھ عقل آدم کو یہ امانت سونپی گئی تھی ان تمام معاہدوں کے ساتھ عقل آدم کو اللہ کی امانت لوٹانی ہوگی ۔ معاہدوں میں ردوبدل ، لاپرواہی اور غلطی امانت میں خیانت گنی جائے گی کیونکہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے اور خیانت کرنے والا قانون قدرت کے تحت سزا کا واجب قرار دیا جاتا ہے ‘‘ ۔ 
اگلے دن صبح 11بجے ہارٹ فورڈ  کنیکٹی کٹ میں محفل تھی ۔ یہ شہر نیویارک کے شمال مشرق میں تقریباً 3گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے ۔ یہاں پر گجرات کاٹھیاوار سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن آباد ہیں۔ 


ہارٹ فورڈ کنیکٹی کٹ میں منعقدہ محفل سے خطاب کرتے ہوئے سعیدہ خاتون نے فرمایا:
’’ انسان مادّی آنکھ سے جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ اسکرین پر دیکھ رہا ہے ۔ مادّی عقل و حواس سطح پر کام کرتے ہیں۔ سطح پر کام کرنے والے حواس کو فکشن اور مفروضہ  حواس کہا گیا ہے ۔ روحانیت میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ طالب فکشن حواس کی نفی کرکے حقیقت کی جانب قدم بڑھائے۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات سمجھنا ہی مشکل ہوتا ہے کہ جن حواس میں وہ اپنے شب و روز گزار رہے ہیں وہ فکشن کیسے قرار دیئے جاسکتے ہیںاور ان کی نفی کیسے ممکن ہے جبکہ ان کے ارد گرد دنیا کا ایک جلوس موجود ہے۔ اتنی ساری چیزوں کی نفی عقل کیسے کرسکتی ہے ۔ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ روحانی شعور مادی شعور پر حاوی ہے ۔ لہٰذا روحانی علوم رکھنے والی ہستیوں کے اقوال میں گہرائی اور حکمتیں چھپی ہوتی ہیں۔ سمندر میں پانی کے دباؤ کو دیکھنے کے لئے سمندر کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے ۔ گہرائی میں جانے کے لئے سطح کو چھوڑنا ہوگا ۔ سمندر کی گہرائی سے مراد سطح سے سمندر کی تہہ تک کا فاصلہ ہے ۔ گہرائی میں جانے کے لئے سطح کو چھوڑنا ضروری ہوگا۔ سمندر کی گہرائی سے مراد سطح سے سمندر کی تہہ تک کا فاصلہ ہے۔ یہ فاصلہ گہرائی میں جا کر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ سطح پر کھڑے ہو کر گہرائی کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ سمندر سطح اور گہرائی دونوں کا مجموعہ ہے ۔ سمندر کی سطح پر اٹھنے والی لہریں گہرائی سے پانی لے کر سطح پر آتی ہیں۔ عناصر میں ہونے والی تمام حرکات و سکنات کی نظیر انسان کی ذات میں ملتی ہے۔ انسان کی مادّی عقل سطحی حواس ہیں جو عناصر میں ہونے والی حرکات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ عناصر سے مل کر بنا ہوا مٹی کا جسم سطحی حواس کا مرکز ہے ۔ مادّی آنکھ تمام سطحی حواس کا مجموعہ ہے۔ سمندر کی سطح پر اٹھنے والی لہریں گہرائی سے پانی لے کر سطح پر آتی ہیں۔ عناصر میں ہونے والی تمام حرکات و سکنات کی نظیر انسان کی ذات میں ملتی ہے ۔ سمندر کی سطح پر اٹھنے والی لہریں گہرائی سے پانی لے کر سطح پر آتی ہیں۔ عناصر میںہونے والی تمام حرکات وسکنات کی نظیر انسان کی ذات میں ملتی ہے ۔ انسان کی مادی عقل سطحی حواس ہیں جو عناصر میںہونے والی حرکات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ عناصر سے مل کر بنا ہوا مٹی کا جسم سطحی حواس کا مرکز ہے ۔ مادی آنکھ تمام سطحی حواس کا مجموعہ ہے ۔ عناصر کی حرکات کی لہریں جب انسان کے مادی حواس کے دائروں سے ٹکراتی ہیں۔ تب آدمی کسی شئے کی حرکات کا مشاہدہ اور محسوس ہوتا ہے۔ سمندر کی لہروں کی طرح انسان کے حواس کے سمندر میں بھی مسلسل حرکت پائی  جاتی ہے ۔ جس طرح سمندر کی لہریں چھوٹی بڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح حواس کی لہریں بھی چھوٹی بڑی ہوتی ہیں۔ جن کے اندر حواس کی مقداریں مختلف ہوتی ہیں۔ مادّی حواس کی مقداریں رنگین روشنیاں ہیں۔ یہی مختلف مقداریں مادی حواس و کیفیات بناتی ہیں۔ رنگ دراصل ثقل GRAVITY ہے جو نظر یا نگاہ کی روشنی کے گرد تانا بانا سا بُن دیتا ہے اور نگاہ اس تانے بانے میں جکڑ جاتی ہے۔ قرآن نے اس تانے بانے کو ’’عنکبوت‘‘ یعنی مکڑی کا جالا کہا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مکڑی کا جالا نہایت ہی کمزور ہوتا ہے لہٰذا  اس جالے کو اپنی نگاہ سے ہٹالو ۔ تاکہ نگاہ اپنے طبعی احاطہ نظر میں دیکھ سکے ۔ فکشن یا مفروضہ حواس وہ حواس ہیں جو GRAVITY کے جالے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مفروضہ حواس کی نفی کرنے سے مراد دل و دماغ پر سے مادیت کے غلبے کو ہٹانا ہے۔ مادیت کا غلبہ جب ہٹ جاتاہے تو ذہن سے مادی ڈائی مینشن مٹنے لگتے ہیں ۔ جب مادی ڈائی مینشن یا اشیاء کی ظاہری تصویریں ذہن سے ہٹ جاتی ہیں تو ان اشیاء کے پس پردہ  کام کرنے والی روح کی روشنی سامنے آتی ہے ۔ روح اﷲ تعالیٰ کا امر ہے ۔ امر اﷲ کا ارادہ ہے اور اﷲ نور ہے اس کی ہر صفت نور ہے ۔ انسان کی نظر کو اﷲ تعالیٰ نے نور میں دیکھنے کی صلاحیت اور اجازت عطا کی ہے ۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر اﷲ تعالیٰ کا جلوہ دیکھا ۔ پہاڑ اس جلوے کا متحمل نہ ہوسکا اور جل گیا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام وقتی طور پر ہیبت و جبروتِ تجلی سے بے ہوش ضرور ہوگئے۔ مگر ہوش میں آنے کے بعد نہ آپ کے جسمِ اطہر پر کوئی جلنے کا نشان آیانہ ہی آپ ؑ کے حواسِ پیمبری میں کوئی دراڑ آئی۔ بلکہ آپ ؑ کو رتبہ پیغمبری پر فائز کیا گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں  اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکمت بیان کی ہے کہ جب آدمی اپنے ظاہری حواس کو سطح سے ہٹا کر گہرائی میں مرکوز کردیتا ہے تو وہ شئے کی گہرائی میںکام کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے نور کو دیکھ لیتا ہے ۔ ہر شئے کی حقیقت اﷲ کا نور ہے ۔ جب نگاہ کا مرکز نور بن جاتا ہے تو تمام حواس نورانی لہروں سے سیراب ہوجاتے ہیں۔ نورانی لہروں کے حواس روحانی کیفیات ہیںجو مفروضہ حواس یا سطح کی گہرائی ہے ۔ سطح محدودیت ہے گہرائی لامحدودیت ہے محدودیت دنیا ہے لامحدودیت اﷲ ہے‘‘ ۔ 
آخر میں آپ نے سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ پاکستان و برطانیہ میں عظیمیہ روحانی لائبریری کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ یہ پروگرام توقع سے کہیں زیادہ کامیاب ہوا ہے آپ بھی یہاں کوشش کریں اور عظیمیہ روحانی لائبریری قائم کریں۔ اس کے بعد ذکرِ بالجہر (نفی اثبات ) ہوا۔ سانس کی مشقوں کے بعد مراقبہ کیا اور دعا کے بعد لنگر تقسیم کیا گیا۔ 
اتوار 25 جولائی کو صبح 11 بجے ہفت روزہ اخبار ’’نیوز پاکستان‘‘ کے نوعمر چیف ایڈیٹر ایم ۔ آر ۔ فرخ انٹرویو کے لئے مراقبہ ہال نیویارک آئے۔ یہ ہفت روزہ اخبار نیویارک اور واشنگٹن ڈی ۔سی سے چھپتا ہے اور  ایشین کمیونٹی میں بہت مقبول ہے ۔ روحانی ڈاک کا کالم ایک عرصہ سے اس میں چھپ رہا ہے ۔ مراقبہ ہال نیویارک کے نگراں ناصر الدین صدیقی کے تعاون سے ایم آر فرخ نے سعیدہ خاتون سے کوئی دو گھنٹے تک گفتگو ریکارڈ کی ۔ آخر میں سعیدہ خاتون نے اپنی کتاب ’’ اندر کامسافر ‘‘ اور مختلف کتابچے اُن کو پیش کئے ۔ اُسی دن شام سات بجے وقار عباس اور انجم کی رہائش گاہ پر محفل مراقبہ منعقد کی گئی۔ پاکستانی کمیونٹی کی ایک کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی اس پروگرام کی نظامت ناصر الدین صدیقی نے کی ۔ محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ۔ حمد باری تعالیٰ میاں عبدالرزاق نے پیش کی۔ نعت رسول مقبولﷺ شاکر نے پیش کی ۔ ناصر الدین صدیقی نے سلسلہ عظیمیہ اور مہمانِ خصوصی کا تعارف کرایا اور حاضرین کو بتایا کہ سعیدہ خاتون سالفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں SUFISM کی لیکچرار ہیں۔ تعارف کے بعد سعیدہ خاتون نے تقریر کی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ آخر میں زاہدہ نے محفل مراقبہ جو ہر اتوار مراقبہ ہال لونگ آئی لینڈ میں منعقد کی جاتی ہے کے بارے میں خواتین و حضرات کو بتایا۔ لنگر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ رات گیارہ بجے تک جاری رہا۔ جب ہم لونگ آئی لینڈ نیویارک پہنچے تو رات کے دو بجے تھے۔ 
26 جولائی بروز پیر ہم زاہدہ اور چودھری محمد رفیق کے ہمراہ محفل مراقبہ میں شرکت کے لئے شاہد خان اور روبینہ کی رہائش گاہ ELMONT پہنچے ۔
محفل سے خطاب کرتے ہوئے سعیدہ خاتون نے کہا ’’ قرآن مجید وحی کا کلام ہے یہ لامحدودیت کے علوم ہیں۔ اس کتاب کو سمجھ کر عمل کیا جائے نہ کہ ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر اونچی جگہوں پر رکھا جائے کہ پشت نہ ہو ۔اگر پڑھا جائے تو محض بغرض ثواب یا قسم کھانے کے لئے نہیں بلکہ عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن تھوڑا پڑھو مگر سمجھ کر پڑھواور جتنا پڑھو اس پر عمل کرو‘‘۔ 
خطاب کے بعد آیت کریمہ اور درود شریف کا ختم پڑھا گیا اور سب نے مراقبہ کیا ۔ زاہدہ نے دعا کرائی اور نیو یارک میں محفل مراقبہ کے اوقات سے حاضرین کو مطلع کیا۔ یہاں سے ہم ’’ پاکستان زندہ باد ٹی وی اسٹیشن‘‘ گئے۔ یہ ٹی وی اسٹیشن کیو گارڈن نیو یارک میں ہے ۔ اس کے چیف پروڈیوسر بشیر قمر ہیں۔ بہت ہی معروف محب وطن پاکستانی ہیں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے معاملات، مشکلات اور مسائل پر مبنی پروگرام اکثر نشر کرتے ہیں۔ آج کا پروگرام بشیر قمر نے ناصرالدین کے ساتھ مل کر سعیدہ خاتون سے روحانی سوال و جواب کی صورت میں زاہدہ اور جمیل احمد کے تعاون سے ترتیب دیا۔ ان کا پروگرام، برونکس ، بروکلین اور مین ہٹن شہر میں دیکھا جاتا ہے ۔ موضوع  گفتگو روح اور روحانی علوم تھا جو آدھ گھنٹے جاری رہا۔ اس پروگرام کی ریکارڈنگ کے اختتام پر  بشیر قمر نے سعیدہ خاتون کی خدمات کو سراہا ۔ 
27 جولائی بروز منگل کو  نیو یارک کے علاقہ بروکلین میں محفل میلاد ہوئی۔ اس موقع پر شادی کے مسئلے کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں سعیدہ خاتون نے کہا کہ ’’ہر قوم کا طرزِ معاشرت مختلف ہے جس کی وجہ سے ان کے سوچنے کا انداز اور طرزِ فکر میں بھی تبدیلی ہے انسان کو طرزِفکر اس کے ماں باپ سے منتقل ہوتا ہے ماں باپ کا طرزِ فکر اُن کے ماں باپ سے ملتا ہے اس طرح سوچنے کا جو انداز آپ کے اندر ہے یہ کئی نسلوں سے منتقل ہوتا ہوا آپ تک پہنچا ہے اسے اتنی آسانی سے بدلا نہیں جاسکتا ۔ ماں باپ اپنے تجربوں کی بناء پر اُس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اولاد کو کسی دوسرے مذہب یا نسل کے لوگوں میں شادی کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ دو جسموں کے ساتھ ساتھ دو ذہنوں کا بھی ملاپ ہے ۔ ذہنی ہم آہنگی کے بغیر شادی کامیاب نہیں ہوتی ۔ آپ جذبات سے ہٹ کر حقیقت کی طرف غور کریں۔ مگر فیصلہ کرنے کے لئے عقلِ سلیم بھی عطا کی گئی ہے ۔ اسے استعمال نہ کرنا اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو ٹھکرانا ہے‘‘۔
سوال و جواب کایہ سلسلہ 5 بجے تک جاری رہا۔ اگلی محفل 7 بجے تھی۔ اب واپس لونگ آئی لینڈ جانا اور پھر واپس آنا ممکن نہ تھا اس لئے ہم وقار عباس او ر انجم کی رہائش پرگئے اور کچھ دیر وہاں آرام کیا۔ 
الوداعی پروگرام و عشائیہ طارق اقبال نے ترتیب دیا۔ ان سے میری ملاقات کراچی میں قلندر بابا اولیائؒ کے عرس مبارک کے موقع پر ایک ورکشاپ میں ہوئی تھی۔ طارق اقبال عرصہ دو سال سے نیویارک میں مقیم ہیں۔ بہت ہی خوش اخلاق سماجی شخصیت ہیں ۔ اس تقریب میں ناصر الدین صدیقی ، میاں عبدالرزاق ، محمد رفیق چودھری ، امجد مغل ، طارق محمود ، محمد عارف ، وقار عباس ، احسن ندیم خاں ، جمیل احمد ، چودھری غلام مصطفٰے ، فرقان اکرم ، مشتاق احمد ، ثناء اﷲ ، زاہدہ رفیق ، حسنہ امجد، روبینہ شاہد ، فرح احمد ، عفت شہزاد، طلعت عائشہ ، فروع انجم ، رضیہ مصطفٰے ، ثریا ناصرالدین کے علاوہ سلسلہ عظیمیہ سے منسلک و عقیدت مند خواتین و حضرات کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اپنی الوداعی تقریر میں سعیدہ خاتون نے سلسلہ عظیمہ کا مکمل تعارف کرانے کے بعد سلسلے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ آخر میں مراقبہ ہال نیویارک کی ناظم زاہدہ نے کہا کہ سعیدہ خاتون کا یہ دورہ سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد کی ترویج کے سلسلہ میں انشاء اﷲ مفید ثابت ہوگا۔ 
سلسلہ عظیمیہ نیویارک و برطانیہ کی طرف سے لگائے گئے کتابوں کے اسٹال پر لوگوں کا ہجوم رہا۔ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اور لٹریچر میں دلچسپی نمایاں تھی۔ حاضرین سے فرداً فرداً ملاقات کا یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ 
28 جولائی بروز بدھ صبح نو بجے NEW-ORLEAN نیو اورلین کی پرواز کے لئے نیویارک لگارڈیا ائیر پورٹ پہنچے راستے میں ٹریفک کا کافی رش تھا مگر پھر بھی ہم وقت پر ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ زاہدہ اور محمد رفیق کو الوداع کہا اور اپنے اگلے سفر پر روانہ ہوگئے۔
  28 جولائی کو ہم نیویارک سے نیواورلین پہنچے سخت گرمی تھی درجہ حرارت 105 ڈگری فارن ہائیٹ تھا۔ ائیر پورٹ پر مراقبہ ہال نیواورلین کی نگران  نسیم برک اور سرگرم رکن نزہت موجود تھیں ۔ کوئی آدھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد گھر پہنچے ۔ نسیم برک کراچی پاکستان سے آئے ہیں۔ فینسی گڈز کا اپنا کاروبار ہے۔ تین جوان بچے ہیں۔ ان کے صاحبزادے سلیمان سیکورٹی فور س میں ڈپٹی مارشل ہیں۔ 
نیواورلین میں خواتین کی ایک محفل جمعہ 30 جولائی کو ڈاکٹرتسنیم کی رہائش گاہ پر اور دوسری محفل مراقبہ ہال میں ہوئی جس میں خواتین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ 2  اگست پیر کو ایک دن کے لئے ہم ہوسٹن گئے یہاں پر ہمارا قیام شہزاد ریاض کی رہائش گاہ پر تھا۔ جو کونٹینینٹل ائیر لائن میں آفیسر ہیں ۔ کراچی سے ان کا تعلق ہے ۔ اپنی کمیونٹی میں ہر دلعزیز ہیں۔ شام کو ہم مسز  سادات عالم سے ملاقات کے لئے اُن کی رہائش گاہ پر گئے جو کہ ناسا اسپیس سینٹر کے پاس ہے۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ روحانی علوم سے بہت دلچسپی ہے سلسلہ عظیمیہ کی کتابیں اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کا بہت ذوق و شوق سے مطالعہ کرتی ہیں ۔ تقریباً ایک گھنٹہ قیام کرنے کے بعد ہم اسپیس سینٹر دیکھنے بھی گئے۔ 
اسپیس سینٹر NASA'S JOHNSON SPACE CENTER کے نام سے مشہور ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی سامنے اسپیس سینٹر پلازہ ہے جہاں شیشوں کے شوکیس میں وہ سوٹ رکھے گئے ہیں جنہیں خلابازوں نے اپنے خلائی سفر کے دوران پہنا تھا ۔ اس کے بائیں طرف آئی میکس تھیڑ ہے جو 5 منزلہ ہے اس میں اسپیس میں لی گئی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ پلازہ کی دائیں طرف مشن سٹیٹس سینٹر ہے جہاں موجودہ اور گذشتہ مشن کی تفصیلات سینما ہال میں دکھائی جاتی ہیں۔ پلازہ سے گذر کر اگر سامنے چلے جائیں تو ٹرام ایریا ہے جہاں سے جانسن اسپیس سینٹر کی ٹرام کے ذریعے سیر کرائی جاتی ہے۔ یہ سینٹر 1600 ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا ہے اس میں تقریباً 14000 افراد کام کرتے ہیں اس ایریا میں مشن کنٹرول سینٹر بھی ہے جہاں سے خلائی سفرکا مشن کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ASTRONAUTS کے لئے تربیتی سہولتیں بھی میسر ہیں آج کل یہاں X-38 اسپیس کرافٹ تعمیر کیا جارہا ہے جو ہنگامی حالت میں خلاء سے زمین پر واپس آنے کے لئے استعمال ہوگا۔ ایک گھنٹے کا یہ دورہ بہت ہی علمی اور دلچسپ رہا۔ سٹی سینٹر ہوسٹن میں ٹرانسکو ٹاور ہے جو 52 منزلہ ہے ۔ اس کے پاس ہی ایک جگہ ہے جو واٹر وال کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ اپریل 1985ء میں بن کر تیار ہوئی ۔ اس دیوار پر 64 فٹ کی بلندی سے ایک منٹ میں 11000گیلن پانی مسلسل گرایا جاتا ہے ۔ اس آبشار کی آواز نیا گرہ آبشار کا سماں پیدا کرتی ہے ۔ 
شہزاد نے سعیدہ خاتون کو اپنے دوستوں سے ملوایا جو اخبار ، ریڈیو اور ادبی تنظیموں سے منسلک ہیں اور نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سعیدہ خاتون نے انہیں سلسلہ عظیمیہ کا تعارف پیش کیا۔






رپورٹ : عبدالحفیظ بٹ - مانچسٹر

روحانی ڈئجسٹ نومبر ، دسمبر 1999ء
Previous Post Next Post

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی موجودہ دورمیں خواتین کی روحانی صلاحیتوں کا اورروحانی مشن کی خدمت کرنے والی خواتین کا جہاں بھی ذکر ہوگاوہاں خدادا صلاحیتوں کی حامل پاکستان سے انگلستان میں جابسنے والی ایک محترم خاتون،محترمہ سعیدہ باجی کا نام یقیناً لیاجائےگا۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون کی پیدائش بھارت کے شہر ناگپور میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگست 1947 ء میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی آگئیں۔ شادی کے بعد 1961 ء میں آپ انگلینڈ منتقل ہوگئیں اور وہیں مارچ 2003ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ مئی1979 ء میں روحانی ڈائجسٹ میں آپ کی روحانی واردات و کیفیات شائع ہونا شروع ہوئیں۔ 1980 ء میں جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے سعیدہ خاتون کوانگلینڈ میں مراقبہ ہال کھولنے اور مراقبہ کرانے کی اجازت دے دی۔ آپ کی سلسلہ وار کہانیاں، منقبتیں، غزلیں روحانی ڈائجسٹ میں متواتر چھپتی رہتی ہیں۔ سلسلہ وار کہانیوں میں ’’خوشبو‘‘، ’’اندر کا مسافر‘‘ اور ’’جوگن‘‘ کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ کے روحانی مشن کی ترویج میں آپ نے سرگرم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصہ تک آپ سالفورڈ یونیورسٹی یو۔کے میں بطور وزیٹنگ لیکچرار روحانی علوم کی تدریس بھی کرتی رہیں۔

Post Bottom Ad

Contact Form